بھارت کے مزید دو نیوز چینلز نے اے آئی نیوز اینکرز متعارف کرادیں
پڑوسی ملک بھارت کی دو مختلف ریاستوں کے مقامی زبانوں میں خبریں نشر کرنے والے نیوز چینلز نے ایک ہی ہفتے میں آرٹیفیشل انٹیلی جنس ( اے آئی) یعنی مصنوعی ذہانت سے لیس دو روبوٹک نیوز اینکرز متعارف کرا دیں۔
ریاست اڑیسہ اور کرناٹکا کے دو مختلف نیوز چینلز نے دو کمپیوٹر روبوٹک نیوز اینکرز متعارف کرا دیں۔
مذکورہ دونوں چینلز سے قبل رواں برس اپریل میں معروف میڈیا گروپ ’انڈیا ٹوڈے‘ نے اپنے چینل ’آج تک‘ کے لیے بھی ایک کمپیوٹر اینکر متعارف کرائی تھی، جسے ’ثنا‘ کا نام دیا گیا تھا۔
’آج تک‘ کی مصنوعی ذہانت سے لیس روبوٹک اینکر کامیاب سے خبریں پڑھتی سنائی دیتی ہیں، تاہم ان کی جملوں کی ادائیگی انسانوں سے کافی مختلف سنائی دیتی ہے۔
اے آئی اینکر ثنا کو بولڈ لباس یعنی پینٹ شرٹ میں پیش کیا گیا تھا جب کہ حال ہی میں متعارف کرائی گئی دونوں روبوٹک اے آئی اینکرز کو ریاستوں کے مقامی لباس میں پیش کیا گیا ہے۔
ریاست کرناٹکا کے کنڑا زبان کے نیوز چینل ’پاور ٹی وی‘ نے 12 جولائی کو ’سندریہ‘ نامی اے آئی اینکر کو متعارف کرایا۔
’سندریہ‘ کو کسی روایتی نیوز اینکر کی طرح کرسی پر بیٹھ کر خبریں پڑھتے دکھایا گیا تھا اور وہ کنڑا زبان سمیت انگریزی میں بھی خبریں پڑھنے میں مہارت رکھتی ہیں۔
کنڑا زبان کے نیوز چینل کی طرح اڑیسہ کے نیوز چینل نے بھی اے آئی سے لیس اینکر ’لیزا‘ کو متعارف کرا دیا جو بیک وقت انگریزی اور اوژیا زبان سمیت دیگر مقامی زبانوں میں بھی خبریں پڑھنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔
’لیزا‘ کو روایتی اڑیسہ کے لباس میں دکھایا گیا اور انہوں نے اپنے تعارف کے وقت خود سے متعلق بتایا کہ وہ اے آئی سے لیس اینکر ہیں اور انہیں امید ہے کہ دیکھنے والے انہیں انسانوں کی طرح عزت دیں گے۔
’لیزا‘ کو اڑیسہ ٹی وی کی جانب سے متعارف کرایا گیا ہے اور چینل کے مطابق وہ مذکورہ اینکر کی اوڑیا زبان کی تربیت پر مزید توجہ دیں گے اور انہیں اس قابل بنایا جائے گا کہ وہ بالکل انسانوں کی طرح خبریں پڑھیں۔
اگرچہ بھارت میں رواں برس اپریل میں پہلے اے آئی اینکر کو متعارف کرایا گیا تھا لیکن چین نے 2018 میں پہلے مصنوعی ذہانت سے لیس اینکر کو متعارف کرایا تھا۔
گزشتہ چند سال میں دنیا بھر میں مصنوعی ذہانت سے لیس روبوٹک اینکرز کو متعارف کرائے جانے میں تیزی دیکھی جا رہی ہے، جس سے انسانوں کی نوکریاں ختم ہونے کا خدشہ بھی پیدا ہوگیا ہے۔
علاوہ ازیں بعض ماہرین ایسے اینکرز کی غلطیوں کی وجہ سے صحافت کو ہونے والے خطرات سے بھی خبردار کرتے دکھائی دیتے ہیں۔