• KHI: Zuhr 12:25pm Asr 4:49pm
  • LHR: Zuhr 11:56am Asr 4:19pm
  • ISB: Zuhr 12:01pm Asr 4:23pm
  • KHI: Zuhr 12:25pm Asr 4:49pm
  • LHR: Zuhr 11:56am Asr 4:19pm
  • ISB: Zuhr 12:01pm Asr 4:23pm

کراچی: قدیم مندر کے پلاٹ پر کسی کو تعمیرات کی اجازت نہیں دی جائے گی، مرتضیٰ وہاب

شائع July 17, 2023
عارضی طور پرمورتیوں کو تزئین و آرائش کا کام ہونے تک کے لیے ایک چھوٹے سے کمرے میں منتقل کردیا تھا—تصویر:ٹوئٹر
عارضی طور پرمورتیوں کو تزئین و آرائش کا کام ہونے تک کے لیے ایک چھوٹے سے کمرے میں منتقل کردیا تھا—تصویر:ٹوئٹر

سولجر بازار میں ڈیڑھ صدی سے زائد قدیم مندر کی مسماری کا نوٹس لیتے ہوئے حکومت سندھ حرکت میں آگئی اور اس عزم کا اظہار کیا کہ وہ اقلیتی برادری کی عبادت گاہ کے ڈھانچے کو مسمار کرکے کسی بھی تجارتی عمارت کی تعمیر کی اجازت نہیں دے گی۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق ہندو برادری نے بتایا تھا کہ ’بلڈر مافیا‘ نے سولجر بازار میں ان کے 150 سال سے زیادہ پرانے مری ماتا مندر کو منہدم کر دیا ہے۔

مندر اس وقت منہدم کیا گیا جب دو افراد عمران ہاشمی اور ریکھا بائی نے مبینہ طور پر ’جعلی دستاویزات کا استعمال کرتے ہوئے ایک بلڈر کو جائیداد فروخت کی۔‘

ہندو برادری کا الزام ہے کہ بلڈر نے مندر کے پلاٹ پر کمرشل عمارت کی تعمیر کے لیے علاقہ پولیس کے تعاون سے جمعہ کی رات گئے عمارتی ڈھانچے کو منہدم کیا۔

صوبائی حکومت نے مندر کو مسمار کرنے کے بارے میں کمیونٹی کے دعوے پر کہا کہ اس نے پولیس اور مقامی انتظامیہ کو قدیم مندر کی زمین کے ٹکڑے پر تعمیر یا مسماری کا کام روکنے کے احکامات دیے ہیں۔

کراچی کے میئر بیرسٹر مرتضیٰ وہاب نے ڈان کو بتایا کہ یہ پلاٹ ہندو پنچایت کی ملکیت ہے اور وہ اس معاملے کے حقائق جاننے میں مصروف ہیں۔

انہوں نے کہا کہ پیپلز پارٹی مذہبی ہم آہنگی اور آزادی پر یقین رکھتی ہے اور کسی کو بھی اقلیتی برادری کی عبادت گاہ پر کوئی ڈھانچہ تعمیر کرنے یا اسے گرانے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔

ایک ٹوئٹ میں انہوں نے کہا کہ میں نے چیک کیا ہے، کوئی انہدام نہیں ہوا اور مندر ابھی تک برقرار ہے، انتظامیہ نے مداخلت کی ہے اور ہندو پنچایت سے کہا گیا ہے کہ وہ اصل حقائق کا پتا لگانے میں پولیس کی مدد کرے۔

انہوں نے مزید کہا کہ میں اس حوالے سے پوسٹ کرتا رہوں گا، پاکستان پیپلز پارٹی تمام برادریوں کے افراد کے ساتھ کھڑی ہے۔

ابتدائی تحقیقات کے بعد پولیس نے کہا کہ ریکھا بائی نامی خاتون نے دعویٰ کیا کہ وہ زمین کے ٹکڑے کی مالکن ہیں اور مذکورہ پلاٹ کے ایک حصے پر ہندو مندر تعمیر کیا گیا تھا اور اسے بھی کئی سال پہلے مذکورہ پراپرٹی سے ملحقہ چھوٹے کمرے میں منتقل کردیا گیا تھا’۔

انہوں نے کہا کہ حکومت سندھ کی تازہ ہدایات کے تحت پولیس اب کراچی کی مدراسی ہندو برادری کے ساتھ رابطہ کر رہی ہے جو گزشتہ کئی دہائیوں سے مندر کا انتظام سنبھالے ہوئے ہیں۔

عہدیدار نے کہا کہ مذکورہ مقام پر مزید کوئی سرگرمی (مسماری یا تعمیراتی کام) جاری نہیں ہے، پولیس ریکارڈ کی جانچ کر کے حقائق کا تعین کرے گی اور فریقین کے دعووں کی دوبارہ جانچ کرے گی۔

مذکورہ مندر کے قریب واقع ایک اور قدیم مندر کے شری رام ناتھ مشرا مہراج نے بتایا کہ مری ماتا مندر 150 سال پہلے بنایا گیا تھا۔

انہوں نے بتایا کہ ’مندر کراچی کی مدراسی ہندو برادری کے زیر انتظام تھا اور چونکہ یہ کہا جا رہا تھا کہ یہ ایک بہت پرانا اور خطرناک ڈھانچہ ہے جو کسی بھی دن گر سکتا ہے اس لیے انتظامیہ نے کافی دباؤ کے بعد ہچکچاتے ہوئے لیکن عارضی طور پر اپنی بیشتر مورتیوں کو تزئین و آرائش کا کام ہونے تک کے لیے ایک چھوٹے سے کمرے میں منتقل کردیا تھا لیکن گزشتہ رات ماڑی ماتا مندر کو مسمار کردیا گیا‘۔

کارٹون

کارٹون : 20 ستمبر 2024
کارٹون : 19 ستمبر 2024