’وزیر خزانہ کا کام ماضی کے قرضوں کی ادائیگی کے لیے مزید قرض لینا رہ گیا‘
معروف ماہر معیشت ڈاکٹر قیصر بنگالی نے کہا ہے پاکستان کے کسی بھی وزیر خزانہ کے پاس صرف ایک ہی آسان کام ہوتا ہے کہ ماضی کے قرضوں کی ادائیگی کے لیے مزید قرضے کیسے حاصل کیے جائیں، ملکی معیشت کا صرف یہی کام رہ گیا ہے۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف انٹرنیشنل افیئرز کے تحت ’اسٹیٹ آف پاکستانز اکانومی: واٹ نیکسٹ‘ کے عنوان سے کراچی میں منعقدہ سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے ڈاکٹر قیصر بنگالی نے کہا کہ ریونیو جنریشن، ترقی، صنعت کاری، تعلیم، صحت وغیرہ کے بارے میں یقیناً بڑے بڑے بیانات ملیں گے لیکن یہ سب افسانے ہیں کیونکہ کسی چیز کے لیے پیسے نہیں ہیں اور کچھ نہیں ہوگا۔
انہوں نے کہا کہ آپ کے تازہ ترین بجٹ میں ریونیو جمع کرنے کے جو دعوے کیے گئے، وہ اہداف کبھی جمع نہیں ہوں گے اور جن چیزوں پر خرچ کرنے کے لیے رقم مختص کی گئی وہ کبھی خرچ نہیں ہوگی کیونکہ ہمارے پاس پیسے نہیں ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ معیشت کو سنبھالنے کے لیے ہمیں اب صرف ایک ہی چیز کی ضرورت ہے کہ ماضی کے قرضوں کی ادائیگی کے لیے مزید قرضے کیسے حاصل کیے جائیں، کیونکہ ہمیں اپنے ماضی کے تمام قرضوں کی ادائیگی کے لیے مزید قرضے نہیں ملیں گے، اس لیے ہم اپنے اثاثے بیچ دیں گے۔
انہوں نے کہا کہ ملک میں موجود ہر چیز بیچنے کے لیے ہے، ہمارا بینکنگ سیکٹر 80 فیصد غیر ملکی ملکیت میں ہے، ہمارا ٹیلی کام سیکٹر 100 فیصد غیر ملکی ملکیت میں ہے جب کہ اسی طرح مزید ادارے غیر ملکی ملکیت میں جانے والے ہیں۔
قیصر بنگالی نے کہا کہ ہم نے ابھی کراچی میں پورٹ ٹرمینل کی نجکاری کا اعلان کیا، سعودی ٹیم نے ہمارے تمام ہوائی اڈوں کا دورہ کیا ہے اور تین بڑے ہوائی اڈے غیر ملکی کمپنیوں کے حوالے کیے جانے والے ہیں، ہم یہ کہنے کے لیے ہر قسم کی اصطلاحات استعمال کرتے ہیں کہ ہم انہیں فروخت نہیں کر رہے ہیں، انہیں صرف آؤٹ سورس کر رہے ہیں لیکن بنیادی طور پر یہ ان اثاثوں کا کنٹرول دیا جا رہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ جلد ہی ہم چینی، سعودی، اماراتی اور دیگر ممالک کے ملازم ہوں گے اور پاکستان ان کی ملکیت ہوگا۔
ان کا کہنا تھا کہ ہم نے اپنی معاشی خود مختاری کھو دی۔ یہ آج نہیں ہوا، 1993 سے لے کر 16 برسوں کے دوران اسٹیٹ بینک کے تین گورنر پاکستان سے باہر سے آئے، وہ عالمی اداروں کے ملازم تھے، انہوں نے پاکستان میں 10 سال سے زیادہ خدمات انجام نہیں دیں لیکن اب جب کہ ہم اپنی معاشی خودمختاری کو مزید رسمی انداز میں دفن کر رہے ہیں، معیشت کی کھڑکی بند ہو گئی ہے۔
معاشی بدحالی کو مزید بیان کرتے ہوئے فیڈرل بورڈ آف ریونیو کے سابق چیئرمین سید شبر زیدی نے کہا کہ پاکستانیوں کو یہ احساس تک نہیں کہ انہوں نے خود کو برباد کر لیا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ہمارے پاس شیڈول کے مطابق 130 ارب امریکی ڈالر کے اپنے غیر ملکی قرضوں کی ادائیگی کے لیے بھی رقم نہیں ہے، ہمارے بینکوں کے تقریباً 85 فیصد قرضے وفاقی حکومت کے قرضوں میں استعمال ہوتے ہیں، مہنگائی بڑھ رہی ہے، بجلی پر ایک ہزار ارب روپے سے زیادہ کی سبسڈی ہے، ریاستی اداروں کا خسارہ ایک ہزار ارب روپے سے زیادہ ہے، 5 کروڑ سے زیادہ بچے تعلیم حاصل نہیں کر رہے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ ہم دنیا میں سب سے زیادہ آبادی میں اضافہ کر رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ اس میں معاشی مسائل کے حل میں ملک کے محل وقوع کے فائدہ پر ایک اسٹریٹجک یو ٹرن لینا اور چین کو ہمارے سپلائر اور امریکا کو ہمارے خریدار کے طور پر دیکھنا شامل ہے۔
شبر زیدی نے پاک ۔ چین اقتصادی راہداری پر شفافیت، افغانستان اور ایران سے اسمگلنگ کے خاتمے، نیشنل فنانس کمیشن ایوارڈ کو درست کرنے، مقامی حکومتوں کو بااختیار بنا کر آئین کے آرٹیکل 140 اے کو نافذ کرنے، غیر سیاسی چیئرمین کے ساتھ ’پلاننگ کمیشن‘ کی بحالی، اور چار کے بجائے کم از کم 10 نئے صوبوں کی تشکیل کی تجویز دی۔