• KHI: Maghrib 5:49pm Isha 7:07pm
  • LHR: Maghrib 5:10pm Isha 6:33pm
  • ISB: Maghrib 5:12pm Isha 6:37pm
  • KHI: Maghrib 5:49pm Isha 7:07pm
  • LHR: Maghrib 5:10pm Isha 6:33pm
  • ISB: Maghrib 5:12pm Isha 6:37pm

وزیر اعظم کی اتحادیوں سے ملاقاتیں، نگران حکومت کے قیام پر تبادلہ خیال

شائع July 16, 2023
وزیر اعظم شہباز شریف نے لاہور میں پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری سے ملاقات کی — فوٹو: اے پی پی
وزیر اعظم شہباز شریف نے لاہور میں پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری سے ملاقات کی — فوٹو: اے پی پی

وزیر اعظم شہباز شریف نے گزشتہ روز اپنے پرانے اتحادیوں اور کچھ نئے سیاسی کھلاڑیوں کے ساتھ ملاقاتوں میں گزارا کیونکہ حکمران اتحاد آئندہ عام انتخابات کے وقت کے ساتھ ساتھ نگران حکومت کے قیام کے حوالے سے اتفاق رائے پیدا کرنے کی کوشش کر رہا ہے جو انتخابی عمل کی نگرانی کرے گی۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق وفاق میں وزیر اعظم شہباز شریف کی زیر قیادت حکمران اتحاد کے اہم اتحادی آصف علی زرداری نے وزیر اعظم سے لاہور میں ماڈل ٹاؤن میں واقع ان کی رہائش گاہ پر ملاقات کی۔

ذرائع کے مطابق ملاقات کے دوران نگران سیٹ اپ سے متعلق معاملات پر بات چیت ہوئی، اس موقع پر عشائیہ کا اہتمام کیا گیا تھا جس کے بعد دونوں نے ایک گھنٹے سے زیادہ وقت تک بالمشافہ ملاقات کی۔

ملاقات سے باخبر پارٹی ذرائع نے بتایا کہ دونوں فریق ایک عبوری سیٹ اپ کے خواہشمند ہیں جو کسی ضرورت کے تحت طویل نہ ہو، اس مقصد کے لیے پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ (ن) دونوں کا جھکاؤ ایک ایسے عبوری سیٹ اپ کی جانب ہے جو ٹیکنوکریٹس کے بجائے زیادہ تر سیاست دانوں پر مشتمل ہو۔

ماڈل ٹاؤن میں ہونے والی ملاقات کے بعد اندرونی ذرائع نے بتایا کہ ٹیکنوکریٹس پر مشتمل نگران سیٹ اپ کا مطلب یہ ہو سکتا ہے کہ انتخابات میں کچھ وقت کے لیے تاخیر ہو سکتی ہے، جس کے حق میں مسلم لیگ (ن) یا پیپلز پارٹی دونوں نہیں ہیں۔

ان کے بقول دبئی اور لاہور دونوں جگہوں پر ہونے والی ملاقاتوں میں یہ معاہدہ ہوا کہ انتخابات میں کوئی بڑی تاخیر نہیں ہونی چاہیے، اس کی وجہ یہ خدشہ ہے کہ اگر مرکز میں ٹیکنوکریٹ سیٹ اپ قائم کیا جاتا ہے تو بااختیار قوتیں اِس ایک نکاتی ایجنڈے کے تحت اس کی مدت میں توسیع کی کوشش کر سکتی ہیں کہ عام انتخابات میں جانے سے پہلے معیشت کو ٹھیک کرنا ہوگا۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ وزیر اعظم شہباز شریف اور آصف زرداری نے قومی اسمبلی کی مدت پوری ہونے سے چند روز قبل اسے تحلیل کرنے کے امکان پر تبادلہ خیال کیا تاکہ انتخابات نومبر 2023 میں کرائے جائیں۔

آئین کے تحت اگر قومی اسمبلی اپنی مدت پوری کر لیتی ہے تو 60 روز کے اندر انتخابات کرائے جائیں گے لیکن اگر اسمبلی وقت سے پہلے تحلیل ہو جاتی ہے، چاہے ایک دن پہلے ہی کیوں نہ ہو، تو نگران حکومت کو انتخابات کرانے کے لیے 90 دن کا وقت ملے گا۔

دونوں رہنماؤں نے آئی ایم ایف معاہدے پر اطمینان کا اظہار کیا جس نے ڈیفالٹ کو روکنے میں مدد کی، بظاہر دونوں قائدین کے درمیان اس بات پر اتفاق رائے پایا جاتا ہے کہ چونکہ ملک کو درپیش بڑے اقتصادی مسائل کو کسی حد تک حل کر لیا گیا ہے اس لیے اب انتخابات میں تاخیر کے لیے کوئی عذر نہیں رہ گیا۔

یاد رہے کہ رواں ماہ کے آغاز میں آصف زرداری نے متحدہ عرب امارات میں نواز شریف سے ملاقات کی تھی تاکہ دیگر چیزوں کے علاوہ دونوں جماعتوں کے اگلے انتخابات میں اقتدار میں آنے کی صورت میں ایک ممکنہ پاور شیئرنگ فارمولے پر تبادلہ خیال کیا جاسکے۔

اطلاعات کے مطابق ملاقات کے دوران دونوں قائدین نے اپنی مرضی کا نگران وزیر اعظم لانے پر اتفاق کیا تھا۔

قوم سے حالیہ خطاب میں وزیر اعظم شہباز شریف نے اعلان کیا تھا کہ ان کی حکومت کی مدت اگلے ماہ ختم ہونے والی ہے اور الیکشن کمیشن آف پاکستان انتخابات کی تاریخ دے گا۔

تاہم اس اعلان کے کئی معنیٰ نکالے جارہے ہیں، کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ انتخابات کی تاریخ کے حوالے سے مرکزی جماعتیں اور اسٹیبلشمنٹ ’ایک صفحے‘ پر نہیں ہیں۔

وزیر اعظم کی جہانگیر ترین سے ملاقات

علاوہ ازیں وزیر اعظم شہباز شریف نے گزشتہ روز استحکام پاکستان پارٹی (آئی پی پی) کے سربراہ جہانگیر خان ترین سے ان کے بھائی عالمگیر خان ترین کے انتقال پر اظہار تعزیت کے لیے ان کی رہائش گاہ پر ملاقات کی۔

مسلم لیگ (ن) کے ذرائع نے بتایا کہ وزیر اعظم نے جہانگیر ترین کو بتایا کہ حکومت کو ان کی پارٹی اراکین کے اس وقت تک اتحاد میں شامل رہنے کی ضرورت ہے جب تک کہ موجودہ حکومت اپنی مدت پوری نہیں کر لیتی۔

ذرائع نے بتایا کہ وزیراعظم کا خیال ہے کہ اگر ان کے 2 مشیر عون چوہدری اور نعمان لنگڑیال ایک ایسے مرحلے پر استعفیٰ دیتے ہیں جب حکومت کی مدت ختم ہونے میں 4 ہفتے باقی رہ گئے ہیں تو یہ حکومتی اتحاد کے لیے اچھا نہیں ہوگا۔

اس پر جہانگیر ترین نے مبینہ طور پر وزیر اعظم کو یقین دلایا کہ ان کی پارٹی حکومتی مدت کے اختتام تک حکومت کی حمایت جاری رکھے گی، اس مقصد کے لیے عون چوہدری اور نعمان لنگڑیال دونوں سے کہا گیا ہے کہ وہ کابینہ میں اپنے عہدوں پر برقرار رہیں۔

یاد رہے کہ آئی پی پی رہنما علیم خان نے اِن دونوں کو اپنے عہدے چھوڑنے کو کہا تھا۔

ترجمان آئی پی پی ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان نے گزشتہ روز ایک ٹوئٹ میں اس فیصلے کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ جہانگیر ترین نے فیصلہ کیا ہے کہ دونوں افراد حکومت کی مدت کے اختتام تک وفاقی کابینہ کا حصہ رہیں گے۔

مسلم لیگ (ن) اور آئی پی پی دونوں پہلے ہی اعلان کرچکے ہیں کہ وہ اگلے انتخابات اپنے اپنے پلیٹ فارم سے آزادانہ طور پر لڑیں گے لیکن مبصرین دونوں کے درمیان سیٹ ایڈجسٹمنٹ کے امکان کو رد نہیں کر رہے، خاص طور پر جنوبی پنجاب کے علاقے میں جہاں مسلم لیگ (ن) سیاسی اعتبار سے واضح طور پر کمزور ہے۔

کارٹون

کارٹون : 5 نومبر 2024
کارٹون : 4 نومبر 2024