دنیا بھر میں 2019 سے اب تک مزید 12 کروڑ 20 لاکھ افراد بھوک کا شکار ہوئے، اقوام متحدہ
اقوام متحدہ کی 5 اداروں کی مشترکہ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ یوکرین میں جنگ سمیت وبائی امراض، موسمیاتی تبدیلیوں اور تنازعات کی وجہ سے دنیا میں 2019 سے مزید 12 کروڑ 20 لاکھ سے زیادہ افراد بھوک کا سامنا کر رہے ہیں۔
اقوام متحدہ کی ایجنسیوں کی طرف سے ’دنیا میں غذائی تحفظ اور غذائیت کی حالت‘ کے نام سے شائع کی گئی مشترکہ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ دنیا بھر میں 2019 سے اب تک 12 کروڑ 20 لاکھ افراد بھوک کا سامنا کر رہے ہیں۔
اقوام متحدہ کے فوڈ اینڈ ایگریکلچر آرگنائزیشن، انٹرنیشنل فنڈ فار ایگریکلچرل ڈیولپمنٹ، یونیسیف، ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن اور ورلڈ فوڈ پروگرام نے خبردار کیا ہے کہ اگر رجحانات جوں کے توں رہے تو 2030 تک بھوک کے خاتمے کا پائیدار ترقی کا ہدف حاصل نہیں ہو سکے گا۔
رپورٹ میں بھوک کے خلاف جدوجہد کا مطالبہ کرتے ہوئے رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ 2022 میں مجموعی طور پر 69 کروڑ 10 لاکھ سے 78 کروڑ 30 لاکھ کے درمیان لوگوں کو بھوک کا سامنا رہا۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ عالمی وبا کورونا وبا سے قبل ان اعداد و شمار میں 2019 کے مقابلے میں 12 کروڑ 20 لاکھ افراد کا اضافہ ہوا ہے۔
گزشتہ روز جاری ہونے والی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ 2021 اور 2022 کے درمیان بھوک کا سامنا کرنے والے افراد کے اعداد و شمار رکے ہوئے تھے، دنیا میں بہت سے ممالک بھوک کے شدید بحرانوں کا سامنا کر رہے ہیں۔
مزید بتایا گیا کہ ایشیا اور لاطینی امریکا میں بھوک میں کمی میں پیش رفت ہوئی لیکن 2022 میں مغربی ایشیا، کیریبین اور افریقہ کے تمام ذیلی خطوں میں بھوک اب بھی بڑھ رہی ہے۔
رپورٹ کے مطابق افریقہ بدستور سب سے زیادہ متاثرہ خطہ ہے جہاں 5 میں سے ایک شخص بھوک کا سامنا کر رہا ہے، درحقیقت یہ اندازہ لگایا گیا ہے کہ 2030 میں تقریباً 60 کروڑ افراد کو بھوک کا سامنا کرنا پڑے گا۔
2022 میں غذائی تحفظ اور غذائیت کی صورتحال سنگین رہی۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ عالمی آبادی کا تقریباً 29.6 فیصد کو خوراک تک مسلسل رسائی حاصل نہیں رہی، ان میں سے تقریباً 9 کروڑ افراد کو خوراک کے شدید عدم تحفظ کا سامنا ہے۔
دریں اثنا صحت مند غذا تک رسائی کے لیے لوگوں کی صلاحیت پوری دنیا میں متاثر ہوئی ہے، 2021 میں دنیا کے 3.1 ارب سے زیادہ لوگ صحت مند غذا کے متحمل نہیں تھے جو کہ 2019 کے مقابلے میں 13 کروڑ 40 لاکھ افراد کے مجموعی اضافے کی نمائندگی ہے۔
رپورٹ میں بڑھتی ہوئی اربنائزیشن کا ’میگا ٹرینڈ‘ کے طور پر بھی ذکر کیا گیا ہے کہ لوگ کس طرح اور کیا کھاتے ہیں۔
2050 تک تقریباً 10 میں سے 7 افراد کے شہروں میں رہنے کی پیش گوئی کے ساتھ حکومتوں اور دیگر افراد کو بھوک، خوراک کا عدم تحفظ اور غذائی قلت سے نمٹنے کے لیے کام کرنے والے ان رجحانات کو سمجھنے کی کوشش کرنی چاہیے اور اپنی پالیسی میں ان کا محاسبہ کرنا چاہیے۔
رپورٹ میں واضح کیا گیا ہے کہ خوراک کی خریداری نہ صرف شہری گھرانوں میں بلکہ دیہی-شہری تسلسل میں بھی نمایاں ہے۔
بتایا گیا ہے کہ خوراک کی قلت سے زیادہ تر دیہی علاقوں میں لوگ متاثر ہوتے ہیں، اعتدال پسند یا شدید غذائی عدم تحفظ نے دیہی علاقوں میں رہنے والے 33 فیصد بالغ اور شہری علاقوں میں 26 فیصد کو متاثر کیا ہے۔
رپورٹ کے مطابق بچوں کی غذائیت کی کمی شہری اور دیہی خصوصیات کو بھی ظاہر کرتی ہے جہاں شہری علاقوں کے 22.4 فیصد کے مقابلے دیہی علاقوں کے 35.8 فیصد کے حساب سے بچوں کی نشوونما کا پھیلاؤ زیادہ ہے۔
رپورٹ میں سفارش کی گئی ہے کہ غذائی تحفظ اور غذائیت کو مؤثر طریقے سے فروغ دینے کے لیے، پالیسی مداخلتوں، اقدامات اور سرمایہ کاری کو دیہی-شہری تسلسل اور زرعی خوراک کے نظام کے درمیان پیچیدہ اور بدلتے ہوئے تعلقات کی جامع تفہیم سے رہنمائی کی جانی چاہیے۔