سپریم کورٹ: فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کے خلاف درخواستیں سماعت کیلئے مقرر
سپریم کورٹ نے سویلینز کا فوجی عدالتوں میں ٹرائلز کے خلاف دائر درخواستیں 18 جولائی کو سماعت کے لیے مقرر کر دیں اور فریقین کو نوٹسز جاری کر دیے۔
چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں 6 رکنی لارجر بینچ سماعت کرے گا جس میں جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس منیب اختر، جسٹس یحییٰ آفریدی، جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی اور جسٹس عائشہ ملک شامل ہیں۔
سپریم کورٹ نے 18 جولائی کو سماعت کے لیے مقدمے کے فریقین کو نوٹسز جاری کر دیے ہیں۔
اس سے قبل 27 جون کو آخری سماعت ہوئی تھی جبکہ بینچ کے رکن جسٹس یحییٰ آفریدی نے فوجی عدالتوں میں عام شہریوں کے ٹرائل کے خلاف دائر درخواستوں پر سماعت کے لیے فل کورٹ بنانے کی تجویز دی تھی۔
سپریم کورٹ نے آخری سماعت میں درخواست گزاروں کی جانب سے فوجی عدالتوں میں ٹرائل روکنے کی درخواست مسترد کرتے ہوئے سماعت غیر معینہ مدت تک ملتوی کردی تھی۔
درخواستوں کا متن
واضح رہے کہ 21 جون کو چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس عمر عطا بندیال نے فوجی عدالتوں میں آرمی ایکٹ کے تحت عام شہریوں کے مقدمات چلانے کے خلاف دائر 4 درخواستوں کو سماعت کے لیے مقرر کرتے ہوئے اپنی سربراہی میں 9 رکنی لارجر بینچ تشکیل دیا تھا۔
چیئرمین پی ٹی آئی، سابق چیف جسٹس جواد ایس خواجہ، معروف قانون دان اعتزاز احسن اور سول سائٹی کی جانب سے عام شہریوں مقدمات آرمی ایکٹ کے تحت فوجی عدالتوں میں چلانے کے خلاف درخواستیں دائر کی گئی تھیں۔
20 جون کو جسٹس جواد ایس خواجہ نے اپنے وکیل ایڈووکیٹ خواجہ احمد حسین کے توسط سے دائر درخواست میں سپریم کورٹ سے فوجی عدالتوں کے ذریعے شہریوں کے ٹرائل کو غیر آئینی قرار دینے کی استدعا کی تھی۔
وکیل عزیر چغتائی کے توسط سے عدالت عظمیٰ میں دائر کی گئی درخواست میں استدعا کی گئی ہے کہ عام عدالتیں ہوتے ہوئے ملٹری عدالتوں کے ذریعے عام شہریوں کا ٹرائل غیر آئینی قرار دیا جائے اور آرمی ایکٹ کے مختلف سیکشنز آئین میں دیے گئے بنیادی حقوق سے متصادم ہیں جنہیں کالعدم قرار دیا جائے۔
اس درخواست سے قبل مختلف شہروں سے سول سوسائٹی کے 5 ارکان نے اپنے وکیل فیصل صدیقی کے ذریعے 9 مئی کے تشدد کے سلسلے میں فوجی عدالتوں میں عام شہریوں کے ٹرائل کو غیر قانونی قرار دینے کی درخواست دائر کی تھی۔
اسی طرح 18 جون کو پاکستان پیپلزپارٹی کے رہنما اور سپریم کورٹ آف پاکستان کے سینئر وکیل اعتزاز احسن نے 9 مئی کے واقعات میں ملوث شہریوں کے مقدمات فوجی عدالتوں میں چلانے کے خلاف سپریم کورٹ میں درخواست دائر کی تھی۔
اعتزاز احسن کی جانب سے وکیل سلمان اکرم راجا نے درخواست دائر کی جس میں شہریوں کےفوجی عدالتوں میں ٹرائل کو غیر آئینی قرار دینے اور وفاقی حکومت کا فوجی عدالتوں میں ٹرائل کا فیصلہ کالعدم قرار دینے کی استدعا کی گئی۔
درخواست میں کہا گیا تھا کہ وفاقی حکومت نے فوجی عدالتوں میں ٹرائل کے کور کمانڈر فیصلہ پر ربر اسٹمپ کا کردار ادا کیا، سویلین کا ٹرائل آرمی ایکٹ کے سیکشن 2 اور 59 آئین سے متصادم ہیں، آرمی ایکٹ قانون کے سیکشن 2 اور 59 کو کالعدم قرار دیا جائے۔
پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کےخلاف سماعت 21 جولائی کو مقرر
دوسری جانب چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ 2023 کے خلاف سپریم کورٹ کا 8 رکنی لارجر بینچ درخواستوں پر سماعت کرے گا۔
سپریم کورٹ کا 8 رکنی لارجر بینچ 21 جولائی کو پروسیجر ایکٹ کے خلاف درخواستوں پر سماعت کرے گا، جس کے لیے رجسٹرار آفس نے تمام درخواست گزاروں اور فریقین کو نوٹسز جاری کردیے ہیں۔
پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کے خلاف درخواستوں کو عیدالاضحیٰ کے بعد دوبارہ سماعت کیلئے مقرر کیا گیا ہے
یاد رہے کہ سپریم کورٹ نے 8 جون کو چیف جسٹس آف پاکستان کے اختیارات میں کمی کے حوالے سے ’سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ 2023‘ کے خلاف دائر درخواستوں پر سماعت بغیر کارورائی ملتوی کر دی تھی۔