آئی ایم ایف بورڈ کی منظوری کے اثرات: ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر1.02 روپے بڑھ گئی
عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے ایگزیکٹو بورڈ سے پاکستان کے لیے قرض پروگرام کی منظوری کے بعد انٹر بینک میں امریکی ڈالر کے مقابلے میں پاکستانی روپے کی قدر میں ایک روپے 2 پیسے کا اضافہ ہوگیا۔
ایکسچینج کمپنیز ایسوسی ایشن آف پاکستان (ای کیپ) کے فراہم کردہ اعداد و شمار کے مطابق صبح 10 بجے پاکستانی کرنسی 275 روپے 10 پیسے میں ٹریڈ ہو رہی تھی جبکہ بدھ کے روز امریکی کرنسی روپے کے مقابلے میں 277.48 پر بند ہوئی تھی۔
اسٹیٹ بینک کے مطابق دن کے اختتام پر روپے کی قدر 0.37 فیصد مستحکم ہوئی اور ڈالر کی قیمت 276 روپے 46 پیسے پر بند ہوئی۔
میٹس گلوبل کے ڈائریکٹر سعد بن نصیر کے مطابق آئی ایم ایف معاہدے کے بعد روپیہ اپنی ’منصفانہ قدر‘ کی جانب بڑھ رہا ہے، انہوں نے کہا کہ موجودہ منظر نامے میں پاکستانی روپے کی قیمت تقریباً 265 روپے بنتی ہے۔
سعد نصیر نے ڈان نیوز ڈاٹ ٹی وی سے بات کرتے ہوئے اس یقین کا اظہار کیا کہ درآمدی اشیا اور خام مال کی مانگ میں کمی کی وجہ سے کرنٹ اکاؤنٹ میں توازن حاصل کرنے کی توقع ہے، جس کے نتیجے میں امکان ہے کہ کم از کم آئندہ 6 ماہ تک کوئی خاص اتار چڑھاؤ نہیں آئے گا۔
ان کا کہنا تھا کہ جو لوگ اثاثے کے طور پر ڈالر جمع کر رہے ہیں وہ گھبرا کر اپنے ڈالر فروخت کر سکتے ہیں، جس کی وجہ سے ایسی صورت حال پیدا ہو سکتی ہے جہاں گرے مارکیٹ میں فروخت کی شرح تقریباً 285 ہو سکتی ہے۔
سعد نصیر نے حکومت پر زور دیا کہ ایسی سرگرمیوں میں ملوث افراد کے خلاف انتظامی کارروائی کی جانی چاہیے۔
ای کیپ کے سیکریٹری جنرل ظفر پراچا نے آئی ایم ایف قرض کی منظوری اور متحدہ عرب امارات کی جانب سے پاکستان کے ذخائر میں فنڈ جمع کرانے کو ملکی معیشت کے لیے ایک مثبت پیش رفت قرار دیا۔
انہوں نے فنڈز کو دانشمندی سے استعمال کرنے اور کفایت شعاری پر عمل کرنے کی اہمیت پر زور دیا تاکہ پرانے مسائل اور بیرونی قرضوں پر انحصار کرنے کی ضرورت سے بچا جا سکے۔
انہوں نے اس بات پر بھی زور دیا کہ پاکستان کو موجودہ صورتحال کو ایک اہم موقع سمجھ کر اس سے فائدہ اٹھانا چاہیے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ دوست ممالک جیسے کہ متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب نے بھی سود کے ساتھ خالصتاً تجارتی بنیادوں پر رقم ڈپازٹ کی ہے۔
ظفر پراچا نے اپنے تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے اس پر خوشی منانے کے بجائے متنبہ رہنے کی تاکید کی اور امید ظاہر کی کہ پاکستانی کرنسی میں زبردست گراوٹ کی نئی بلندیوں کو چھونے والا بدقسمت دور اپنے آپ کو نہیں دہرائے گا۔
انہوں نے ملک کو خود کفیل بنانے کے منصوبوں کے حوالے سے وزیر اعظم کے حالیہ بیان کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ’ہم قرض دہندگان سے فنڈز حاصل کر کے تھک چکے ہیں، لیکن ایسا لگتا ہے کہ ہم اپنے اخراجات میں کوئی کمی نہیں کر رہے‘۔
انہوں نے ملک کی رفتار کو درست کرنے اور اسے صحیح راستے پر ڈالنے کے لیے اقدامات پر عمل درآمد کی اہم ضرورت پر زور دیا۔
دوسری جانب آئی ایم ایف بورڈ کی جانب سے قرض پروگرام کی منظوری کے اثرات پاکستان اسٹاک ایکسچینج میں بھی نمایاں رہے اور کاروبار میں تیزی دیکھنے میں آئی۔
اسٹاک مارکیٹ میں صبح 11 بج کر 55 منٹ پر بینچ مارک کے ایس ای۔100 انڈیکس 410 پوائنٹس یا 0.9 فیصد اضافے کے بعد 45 ہزار 925 پوائنٹس تک پہنچ گیا۔
خیال رہے کہ 29 جون کو آئی ایم ایف اور پاکستان نے ملک کے مالیاتی بحران کو کم کرنے کے لیے اسٹینڈ بائی ارینجمنٹ پر معاہدہ کیا تھا جس کے تحت 3 ارب ڈالر کا قلیل مدتی مالیاتی پیکیج دیوالیہ کے دہانے پہنچ جانے والی معیشت کو خاصی مہلت فراہم کرے گا۔
ایگزیکٹو بورڈ کی منظوری کے بعد آئی ایم ایف سے جاری بیان میں کہا گیا کہ پاکستان کے نئے اسٹینڈ بائی انتظامات سے تعاون یافتہ پروگرام ملکی اور بیرونی عدم توازن کو دور کرنے کے لیے ایک پالیسی اینکر اور کثیر جہتی اور دوطرفہ شراکت داروں کی مالی مدد کے لیے ایک فریم ورک فراہم کرے گا۔
آئی ایم ایف نے کہا کہ یہ پروگرام چار اہم نکات پر توجہ مرکوز کرے گا، جس میں سال 24-2023 کے بجٹ کا نفاذ شامل ہے تاکہ پاکستان کی مالیاتی ایڈجسٹمنٹ کو آسان بنایا جاسکے اور اہم سماجی اخراجات کی حفاظت کرتے ہوئے قرضوں کی پائیداری کو یقینی بنایا جا سکے۔
اس کے ساتھ بیرونی جھٹکوں کو جذب کرنے اور غیر ملکی کرنسی کی قلت کو دور کرنے کے لیے مارکیٹ کی طے شدہ شرح مبادلہ کی طرف واپسی اور غیر ملکی زرمبادلہ کی منڈی کا مناسب کام کرنا ایک مناسب طور پر سخت مالیاتی پالیسی جس کا مقصد تنزلی کو کم کرنا ہے۔
مزید برآں ساختی اصلاحات پر پیش رفت، خاص طور پر توانائی کے شعبے کی عملداری، سرکاری اداروں کی حکمرانی، اور موسمیاتی لچک کے حوالے سے سے اقدامات شامل ہیں۔
فوری طور پر ادا کیے جانے والے ایک ارب 20 کروڑ کے علاوہ باقی رقم پروگرام کی مدت کے دوران مرحلہ وار دی جائے گی، جو دو سہ ماہی جائزوں سے مشروط ہوگی۔