عریاں تصاویر کیلئے ادائیگی کا الزام، بی بی سی نے پولیس سے ملنے کے بعد تفتیش روک دی
برطانوی نشریاتی ادارے (بی بی سی) نے کہا ہے کہ سرکردہ پریزینٹر کی طرف سے نابالغ لڑکے کو مبینہ طور پر عریاں تصاویر کے لیے ہزاروں پاؤنڈز ادا کرنے کے الزام کی تفتیش روک دی گئی ہے جبکہ پولیس حالات کا معائنہ کر رہی ہے۔
غیرملکی خبر رساں ایجنسی ’رائٹرز‘ کے مطابق نشریاتی ادارے ’دی سَن‘ میں شائع ہونے والی رپورٹ کے بعد برطانوی نشریاتی ادارے پر حالیہ دنوں سخت تنقید کی جارہی ہے کہ اس کے سرکردہ پریزینٹر نے نابالغ لڑکے کو مبینہ طور پر عریاں تصاویر کے لیے 35 ہزار پاؤنڈز ادا کیے اور یہ سلسلہ اس وقت شروع ہوا جب نابالغ کی عمر 17 برس تھی۔
ادھر بی بی سی نے پریزینٹر کو برطرف کرتے ہوئے پولیس کے ساتھ معاملہ کا ذکر کیا، تاہم پریزینٹر کا نام ظاہر نہیں کیا گیا۔
سوشل میڈیا پر مختلف قیاس آرائیاں گردش کرنے کے بعد بی بی سی کے متعدد اسٹارز نے سوشل میڈیا پر وضاحت کی کہ ان میں سے کوئی بھی اس کام میں ملوث نہیں۔
بی بی سی نے اپنے بیان میں کہا کہ انہیں کہا گیا ہے کہ وہ الزامات کی تحقیقات روک دے جب کہ مستقبل کا دائرہ کار پولیس پر مبنی ہے۔
پیر کو پولیس نے کہا کہ اس کی ماہر کرائم کمانڈ کے تفتیش کار کارپوریشن کے نمائندوں سے ملے تھے اور معلومات کا جائزہ لے رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اس وقت کوئی تفتیش نہیں ہو رہی۔
خیال رہے کہ بی بی سی کی لائسنس فیس ہر ٹی وی دیکھنے والا برطانوی گھر ادا کرتا ہے، اب بی بی سی پریزینٹر پر عائد الزامات کی چھان بین کرنے اور ان کی رازداری کی حفاظت کرنے کی کوشش کر رہا ہے، جبکہ شفاف ہونے کے ساتھ ساتھ اپنے تمام سرکردہ پریزینٹر کو شک میں نہیں ڈالا جا رہا۔
بی بی سی نے کہا کہ انہیں پریزینٹر کے بارے میں مئی میں ہی شکایت موصول ہوگئی تھی لیکن اس کی تفتیشی ٹیم نے شکایت کنندہ سے بعد ازاں مسلسل رابطہ رکھنے کی کوشش کی۔
گزشتہ روز (پیر) بی بی سی نے رپورٹ کیا کہ انہیں نابالغ لڑکے کے وکیل کی طرف سے خط موصول ہوا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ الزامات انتہائی سنگین ہیں۔
بی بی سی نے اپنے بیان میں کہا کہ حالیہ دنوں کے واقعات نے ظاہر کیا ہے کہ اس قسم کے کیسز کتنے پیچیدہ اور چیلنجنگ ہو سکتے ہیں اور یہ کس قدر ضروری ہے کہ انہیں انتہائی احتیاط سے نمٹا جائے۔