پنجاب کے دریاؤں میں طغیانی کے سبب اطراف کی آبادیوں کی نقل مکانی جاری
بھارت سے دریاؤں میں پانی کی بڑھتی ہوئی آمد سے کناروں پر آباد دیہاتوں کو خطرہ لاحق ہے اور ان علاقوں سے لوگوں کی نقل مکانی کا سلسلہ جاری ہے۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق ریسکیو 1122 نے نارووال میں دریائے راوی کے قریبی علاقوں سے 16 بچوں سمیت 236 افراد کو نکالا۔
نارووال میں ریسکیو 1122 کے ترجمان حرمت علی کے مطابق فیملی کو رینجرز کی مدد سے محفوظ مقامات پر منتقل کیا گیا۔
اتوار کو دریاؤں میں پانی خطرناک سطح تک بڑھ گیا تھا ایسے میں راوی اور تاوی ندیوں کے قریب پھنسے ہوئے 5 رینجرز اہلکاروں سمیت کم از کم 95 افراد کو بچا لیا گیا تھا۔
نارووال کے ڈپٹی کمشنر محمد اشرف کے مطابق تحصیل شکر گڑھ کے قریب دریائے راوی میں پانی کا بہاؤ اتوار کی رات 75 ہزار کیوسک سے کم ہو کر پیر کی شام 23 ہزار کیوسک رہ گیا تھا۔
سیالکوٹ کے ڈپٹی کمشنر عدنان محمود اعوان نے بتایا کہ پیر کو ہیڈ مرالہ کے مقام پر دریائے چناب اور تاوی کا مشترکہ بہاؤ ایک لاکھ 76 ہزار 940 کیوسک تھا۔
انہوں نے کہا کہ تمام آبی ذخائر معمول کے مطابق بہہ رہے ہیں اور ضلعی انتظامیہ صورتحال سے نمٹنے کے لیے تیار ہے۔
قصور کے قریب دریائے راوی کے قریب دیہاتوں میں حکام نے مساجد کے لاؤڈ اسپیکرز کے ذریعے اعلانات کیے جس میں مقامی لوگوں سے کہا گیا کہ اگر پانی کی سطح نچلی سیلابی سطح سے بلند ہو جائے تو وہ نقل مکانی کے لیے تیار رہیں۔
قصور کی ضلعی انتظامیہ نے کہا کہ بھارت نے پیر کی سہ پہر 3 بج کر 47 منٹ پر پنجاب کے فیروز پور ہیڈ ورکس سے 65 ہزار کیوسک پانی چھوڑا، قصور کے قریب گنڈا سنگھ والا میں 19 گھنٹے میں پانی پہنچنے کا امکان ہے۔
انتظامیہ نے موٹر بوٹس کا انتظام کیا ہے اور تلوار پوسٹ کے علاقے میں امدادی کیمپ لگائے ہیں جہاں پانی کی سطح 18 فٹ ہونے کا امکان ہے جو نچلے درجے کے سیلاب سے 1.5 فٹ نیچے ہے۔
اسسٹنٹ کمشنر رضوان الحق پوری کے مطابق دریا کنارے دیہاتوں، بستیوں اور نشیبی علاقوں کے لوگوں کو آئندہ 24 گھنٹوں میں انخلا کے لیے تیار رہنے کو کہا گیا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ابھی تک کے لیے مرکزی توجہ بھِکی ونڈ پوسٹ اور اس کے ملحقہ دیہات تھے، جن میں چندا سنگھ والا، گاٹی کلونجر اور چھنٹ شامل ہیں، جہاں دریا کے کناروں میں کم فاصلہ ہونے کی وجہ سے پانی کا بہاؤ بڑھ جاتا ہے۔
سرکاری خبررساں ادارے اے پی پی نے ضلعی انتظامیہ کے ترجمان کے حوالے سے بتایا کہ بہاولنگر میں، بھارت سے پانی کی آمد میں اضافے کے بعد ہیڈ گنڈا سنگھ کے قریب دریائے ستلج میں پانی کی سطح 16 فٹ تک بڑھ گئی ہے۔
گزشتہ 12 گھنٹوں کے دوران دریا میں پانی کی سطح میں 3فٹ اضافہ ہوا ہے جبکہ انتظامیہ کا دعویٰ ہے کہ دریا میں طغیانی کے پیش نظر کسی بھی ہنگامی صورتحال سے نمٹنے کے لیے انتظامات کر لیے گئے ہیں۔
گجرات میں پیر کو مرالہ سے خانکی ہیڈ ورکس تک دریائے چناب میں نچلے درجے کا سیلاب ریکارڈ کیا گیا۔
کمشنر گوجرانوالہ نوید شیرازی اور ریجنل پولیس آفیسر ڈاکٹر حیدر اشرف نے دریائے چناب کے کنارے واقع علاقوں کا دورہ کیا جہاں ڈی سی گجرات صفدر ورک نے انہیں ممکنہ سیلابی صورتحال اور انخلا کے منصوبوں کے بارے میں بریفنگ دی۔
ڈپٹی کمشنر نے ڈان کو بتایا کہ مرالہ ہیڈ ورکس میں پانی کی آمد تقریباً ایک لاکھ 76 ہزار کیوسک جبکہ خانکی اور قادر آباد ہیڈ ورکس پر پانی کا بہاؤ بالترتیب ایک لاکھ 93 ہزار اور ایک لاکھ 86 ہزار کیوسک تھا۔
لاہور میں کمشنر نے دعویٰ کیا کہ دریائے راوی اور ستلج میں سیلاب کی صورتحال تشویشناک نہیں ہے۔
محمد علی رندھاوا نے ڈان سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اگر آپ اعداد و شمار کا مطالعہ کریں تو بھارت نے گزشتہ سال ایک لاکھ 72 ہزار کیوسک پانی چھوڑا تھا جو جسر پوائنٹ پر 60 ہزار کیوسک اور شاہدرہ (دریائے راوی میں) پر 31 ہزارکیوسک تک کم ہوگیا تھا۔
انہوں نے مزید کہا کہ اس بار بھارت نے اب تک ایک لاکھ 82 ہزار کیوسک پانی چھوڑا ہے جو جسر پر 65 ہزار کیوسک اور شاہدرہ میں 35 ہزار کیوسک رہ گیا ہے، اسی طرح دریائے ستلج میں پانی کی مقدار کم تھی۔
دریائے چناب میں درمیانے درجے کا سیلاب
فیڈرل فلڈ کمیشن (ایف ایف سی) نے کہا ہے کہ دریائے چناب کے میدانی علاقوں میں شدید بارشوں کے نتیجے میں سیالکوٹ اور حافظ آباد کے درمیان مرالہ-خانکی-قادر آباد ہیڈ ورکس پر درمیانے درجے کا سیلاب آیا ہے۔
ایف ایف سی کی روزنامہ رپورٹ کے مطابق دیگر تمام بڑے دریا معمول کے مطابق بہہ رہے ہیں۔
تاہم دریائے راوی میں نارووال کے قریب جسر کے مقام پر درمیانے سے اونچے درجے کا سیلاب اور اس کے منسلک نالوں میں آئندہ 24 گھنٹوں کے دوران درمیانے درجے کا سیلاب متوقع ہے۔