تیل کے بعد روس سے درآمد شدہ مزید اشیا پاکستان پہنچنے لگیں
ٹرانسپورٹ انٹرنیشنل روٹ (ٹی آئی آر) معاہدے کے تحت روس سے دالوں اور دیگر سامان سے لدے کم از کم دو کارگو کنٹینرز جمعہ کو رات دیر گئے طورخم بارڈر پر پہنچے۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق حکام نے بتایا کہ اپنی نوعیت کی یہ پہلی کھیپ ٹی آئی آر کے دوطرفہ تجارتی معاہدے کا حصہ ہے جس پر رواں سال مارچ میں وفاقی وزیر برائے مواصلات اسعد محمود کے ماسکو دورے کے دوران روس کے ساتھ دستخط کیے گئے تھے۔
ان کا کہنا تھا کہ معاہدے پر دستخط اور پہلی کھیپ کی آمد کے بعد اب دونوں ممالک باضابطہ طور پر باہمی تجارت کے ذریعے منسلک ہو گئے ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ طورخم پر کسٹم حکام کی جانب سے کلیئرنس دینے کے بعد دونوں گاڑیوں کو پاکستان میں ان کی منزل کی طرف جانے کی اجازت دی گئی۔
خیبر چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹریز کے نائب صدر ظہیر اللہ نے کہا کہ ملک کو موجودہ مالیاتی دلدل سے نکالنے کے لیے روس کے ساتھ تجارت ضروری ہے۔
انہوں نے وفاقی حکومت پر زور دیا کہ وہ درآمدی پالیسیوں میں نرمی کرے اور دوطرفہ تجارت کے فروغ کے لیے قابل عمل اور عملی ایس آر اوز (قانونی ریگولیٹری آرڈرز) وضع کرے۔
کسٹمز حکام کا کہنا تھا کہ پاکستان کھیلوں کے سامان کے ساتھ چاول، ادویات، تازہ پھل اور سبزیاں برآمد کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے جبکہ وہ روس سے ٹیکسٹائل اور ٹیکسٹائل مشینری بھی درآمد کر سکتا ہے۔
ایل پی جی ٹینکرز
دوسری جانب ازبکستان سے درآمد شدہ مائع پیٹرولیم گیس (ایل پی جی) لے کر آنے والے کم از کم 50 ٹینکرز کو الیکٹرانک امپورٹ فارم (ای آئی ایف) نہ ہونے کی وجہ سے طورخم بارڈر کے راستے پاکستان میں داخل ہونے کی اجازت دینے سے انکار کردیا گیا۔
یہ ٹینکرز گزشتہ ایک ماہ سے جلال آباد کے قریب سرحد کے افغان حصے میں پھنسے ہوئے ہیں، تمام 50 ٹینکرز سرحد پر داخلےکی اجازت نہ ملنے کے بعد جلال آباد واپس لوٹ گئے۔
قبل ازیں کسٹم حکام نے 13 جون کو تاتارا انٹرپرائزز پرائیویٹ لمیٹڈ کو ای آئی ایف فراہم کرنے سے ایک بار کی چھوٹ دی تھی، جو طورخم پہنچنے کے بعد کم از کم 15 ایسے ٹینکرز کی درآمد کنندہ تھی۔
حکام نے کہا کہ ای آئی ایف کنسائنمنٹ کے برآمد کنندہ کو ادائیگی اور بعد میں کسٹم کلیئرنس کے وقت سامان کے اعلان فارم کا اجرا کی بنیادی شرط ہوتی ہے۔
تاتارا انٹرپرائزز نے رواں سال کے اوائل میں ازبکستان کے ساتھ60 ہزار ٹن ایل پی جی درآمد کرنے کا معاہدہ کیا تھا کیونکہ سستی قیمت کی وجہ سے مقامی مارکیٹوں میں اس کی اشد ضرورت تھی۔
بقیہ ایل پی جی ٹینکرز کو کلیئر کرنے کے ذمہ دار کسٹم کلیئرنگ ایجنٹ مجیب اللہ شنواری نے ڈان کو بتایا کہ انہوں نے پشاور میں کسٹم حکام کے ساتھ ساتھ اسلام آباد میں وزارت تجارت اور پیٹرولیم کے حکام کے ساتھ طویل بات چیت کی۔
ان حکام نے ای آئی ایف کے حصول پر اصرار کیا جبکہ مستقبل میں بارٹر ٹریڈ کے ذریعے ایل پی جی درآمد کرنے کا آپشن بھی پیش کیا، جسے حال ہی میں وفاقی حکومت نے متعارف کرایا تھا۔
انہوں نے کہا کہ ان کی کمپنی فی الحال باقی تمام ٹینکرز کو کلیئر کرنے کے لیے ای آئی ایف کی خریداری کے عمل میں ہے۔
ان ٹینکرز کو فوری کلیئر کرنے کی ضرورت ایل پی جی کی انتہائی آتش گیر نوعیت کی وجہ سے پیدا ہوئی، جس کو طویل مدت تک رکھنے کی صورت میں خطرہ لاحق تھا۔