• KHI: Maghrib 5:42pm Isha 7:02pm
  • LHR: Maghrib 5:00pm Isha 6:25pm
  • ISB: Maghrib 5:00pm Isha 6:28pm
  • KHI: Maghrib 5:42pm Isha 7:02pm
  • LHR: Maghrib 5:00pm Isha 6:25pm
  • ISB: Maghrib 5:00pm Isha 6:28pm

توشہ خانہ کیس: چیئرمین پی ٹی آئی کو آج حاضری سے استثنیٰ، کل طلب

شائع July 6, 2023
وکیل نے کہا کہ چیئرمین پی ٹی آئی نے آج لاہور ہائی کورٹ میں پیش ہونا ہے — فائل فوٹو: شٹراسٹاک
وکیل نے کہا کہ چیئرمین پی ٹی آئی نے آج لاہور ہائی کورٹ میں پیش ہونا ہے — فائل فوٹو: شٹراسٹاک

اسلام آباد کی مقامی عدالت نے توشہ خانہ کیس میں پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے چیئرمین عمران خان کی آج حاضری سے استثنیٰ کی درخواست منظور کرتے ہوئے انہیں کل ذاتی حیثیت میں پیش ہونے کا حکم دے دیا۔

ایڈیشنل سیشن جج ہمایوں دلاور نے توشہ خانہ کیس کی سماعت کی جس کے دوران چیئرمین پی ٹی آئی کے وکیل گوہر علی خان اور الیکشن کمیشن کے وکیل امجد پرویز عدالت میں پیش ہوئے۔

پی ٹی آئی چیئرمین کے وکیل گوہر علی خان نے دلائل کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں معلوم نہیں تھا کہ کیس آج سماعت کے لیے مقرر ہے، رات کو واٹس ایپ پر معلوم ہوا، سیشن عدالت میں کیس 8 جولائی کے لیے مقرر تھا۔

انہوں نے اپنے مؤکل کی حاضری سے استثنٰی کی درخواست دائر کرتے ہوئے مؤقف اپنایا کہ چیئرمین پی ٹی آئی نے آج لاہور ہائی کورٹ میں پیش ہونا ہے، اگلی سماعت کے لیے 10 جولائی کے بعد کی کوئی بھی تاریخ دے دیں۔

الیکشن کمیشن کے وکیل نے دلائل دیے کہ اسلام آباد ہائی کورٹ نے 7 روز میں کیس کا فیصلہ کرنے کی ہدایت کی ہے۔

جج نے ریمارکس دیے کہ وکیل شیر افضل نے کہا کہ 12 بجے تک سماعت کو روک لیں خواجہ حارث نے پیش ہونا ہے، جس پر گوہر علی خان نے بتایا کہ شیر افضل تو نہیں میں خواجہ حارث کی جگہ پیش ہوا ہوں۔

جج نے ریمارکس دیے کہ آپ کی آپس میں کوآرڈینیشن ہی نہیں ہے۔

انہوں نے کہا کہ 7 یا 8 جولائی کی تاریخ دے رہا ہوں، 10 جولائی کو فیصلہ کرنا ہے، میں 7 اور 8 جولائی کو بھی حاضری سے استثنیٰ کی درخواستیں منظور کرلوں گا، آپ کو دو دن دیے جارہے ہیں آپ دلائل دیں۔

وکیل گوہر علی خان نے کہا آپ صرف 10 جولائی کی تاریخ دے دیں، ہم تاخیری حربے نہیں استعمال کر رہے۔

وکیل امجد پرویز نے کہا کہ چیئرمین پی ٹی آئی نے اسلام آباد ہائی کورٹ سے ڈیڑھ ماہ کا حکم امتناع انجوائے کیا ہے، جہاں 7 ماہ پہلے تھے آج بھی وہیں کھڑے ہوئے ہیں، 7 ماہ میں ایک بار بھی چیئرمین پی ٹی آئی عدالت پیش نہیں ہوئے۔

بعد ازاں ایڈیشنل اینڈ سیشن جج نے تحریک انصاف کے سربراہ کی حاضری سے استثنیٰ کی درخواست منظور کرتے ہوئے انہیں کل ذاتی حیثیت میں پیش ہونے کا حکم دیا۔

سماعت کے بعد جاری مختصر فیصلے میں جج نے کہا کہ وکیل شیر افضل نے سماعت ساڑھے 11 بجے مقرر کرنے کا کہا کہ خواجہ حارث عدالت پیش ہوں گے، جس کے بعد الیکشن کمیشن کے وکیل اور وکیل گوہر علی خان عدالت پیش ہوئے، گوہر علی خان نے بتایا کہ خواجہ حارث لاہور میں ذاتی مصروفیات کے باعث دستیاب نہیں ہیں۔

حکم نامے میں کہا گیا کہ وکیل گوہر علی خان نے چیئرمین پی ٹی آئی کی حاضری سے استثنیٰ دینے کی درخواستیں دائر کیں اور 10 جولائی تک سماعت ملتوی کرنے کی استدعا کی، تاہم الیکشن کمیشن کے وکیل نے سماعت ملتوی کرنے کی استدعا کی مخالفت کی۔

سیشن جج نے کہا کہ چیئرمین پی ٹی آئی کی حاضری سے استثنیٰ کی درخواست منظور کی جاتی ہے، وکیل گوہر علی خان ضمانت دیں کہ چیئرمین پی ٹی آئی آئندہ سماعت پر پیش ہوں گے۔

بعد ازاں عدالت نے توشہ خانہ کیس کی سماعت کل تک ملتوی کرتے ہوئے خواجہ حارث کو کل عدالت پیش ہونے کا حکم دیا، ساتھ ہی پی ٹی آئی کے سربراہ کی بھی ذاتی حیثیت میں طلب کرلیا۔

خیال رہے کہ 4 جولائی کو اسلام آباد ہائی کورٹ نے سیشن کورٹ کے اس فیصلے کو کالعدم قرار دے دیا تھا جس میں اس نے پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین کی جانب سے توشہ خانہ کیس کو ناقابل سماعت قرار دینے کی درخواست مسترد کر دی تھی۔

توشہ خانہ کیس

گزشتہ برس اگست میں حکمران اتحاد کے 5 ارکان قومی اسمبلی کی درخواست پر اسپیکر قومی اسمبلی نے سابق وزیراعظم عمران خان کی نااہلی کے لیے توشہ خانہ ریفرنس الیکشن کمیشن کو بھجوایا تھا۔

ریفرنس میں الزام عائد کیا گیا تھا کہ عمران خان نے توشہ خانہ سے حاصل ہونے والے تحائف فروخت کرکے جو آمدن حاصل کی اسے اثاثوں میں ظاہر نہیں کیا۔

آئین کے آرٹیکل 63 کے تحت دائر کیے جانے والے ریفرنس میں آرٹیکل 62 (ون) (ایف) کے تحت عمران خان کی نااہلی کا مطالبہ کیا گیا تھا۔

کیس کی سماعت کے دوران عمران خان کے وکیل بیرسٹر علی ظفر نے مؤقف اپنایا تھا کہ 62 (ون) (ایف) کے تحت نااہلی صرف عدلیہ کا اختیار ہے اور سپریم کورٹ کے مطابق الیکشن کمیشن کوئی عدالت نہیں۔

عمران خان نے توشہ خانہ ریفرنس کے سلسلے میں 7 ستمبر کو الیکشن کمیشن میں اپنا تحریری جواب جمع کرایا تھا، جواب کے مطابق یکم اگست 2018 سے 31 دسمبر 2021 کے دوران وزیر اعظم اور ان کی اہلیہ کو 58 تحائف دیے گئے۔

بتایا گیا کہ یہ تحائف زیادہ تر پھولوں کے گلدان، میز پوش، آرائشی سامان، دیوار کی آرائش کا سامان، چھوٹے قالین، بٹوے، پرفیوم، تسبیح، خطاطی، فریم، پیپر ویٹ اور پین ہولڈرز پر مشتمل تھے البتہ ان میں گھڑی، قلم، کفلنگز، انگوٹھی، بریسلیٹ/لاکٹس بھی شامل تھے۔

جواب میں بتایا کہ ان سب تحائف میں صرف 14 چیزیں ایسی تھیں جن کی مالیت 30 ہزار روپے سے زائد تھی جسے انہوں نے باقاعدہ طریقہ کار کے تحت رقم ادا کر کے خریدا۔

اپنے جواب میں عمران خان نے اعتراف کیا تھا کہ انہوں نے بطور وزیر اعظم اپنے دور میں 4 تحائف فروخت کیے تھے۔

سابق وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ انہوں نے 2 کروڑ 16 لاکھ روپے کی ادائیگی کے بعد سرکاری خزانے سے تحائف کی فروخت سے تقریباً 5 کروڑ 80 لاکھ روپے حاصل کیے، ان تحائف میں ایک گھڑی، کفلنگز، ایک مہنگا قلم اور ایک انگوٹھی شامل تھی جبکہ دیگر 3 تحائف میں 4 رولیکس گھڑیاں شامل تھیں۔

بعد ازاں 21 اکتوبر 2022 کو الیکشن کمیشن آف پاکستان (ای سی پی) نے سابق وزیر اعظم اور پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کے خلاف دائر کردہ توشہ خانہ ریفرنس کا فیصلہ سناتے ہوئے انہیں نااہل قرار دے دیا تھا۔

الیکشن کمیشن نے عمران خان کو آئین پاکستان کے آرٹیکل 63 کی شق ’ایک‘ کی ذیلی شق ’پی‘ کے تحت نااہل کیا جبکہ آئین کے مذکورہ آرٹیکل کے تحت ان کی نااہلی کی مدت موجودہ اسمبلی کے اختتام تک برقرار رہے گی۔

فیصلے کے تحت عمران خان کو قومی اسمبلی سے ڈی سیٹ بھی کردیا گیا تھا۔

الیکشن کمیشن آف پاکستان نے توشہ خانہ کیس میں عمران خان کو نااہل قرار دینے کا فیصلہ سنانے کے بعد کے ان کے خلاف فوجداری کارروائی کا ریفرنس عدالت کو بھیج دیا تھا، جس میں عدم پیشی کے باعث ان کے ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری بھی جاری ہوئے تھے۔

اس کے علاوہ 10 مئی کو توشہ خانہ کیس میں سابق وزیر اعظم پر فرد جرم بھی عائد کردی گئی تھی۔

کارٹون

کارٹون : 25 نومبر 2024
کارٹون : 24 نومبر 2024