یونان کشتی حادثہ: پنجاب کے مختلف علاقوں سے 5 انسانی اسمگلرز گرفتار
وفاقی تحقیقاتی ایجنسی (ایف آئی اے) نے پنجاب کے مختلف علاقوں میں کریک ڈاؤن کرتے ہوئے یونان کشتی حادثے میں ملوث 5 انسانی اسمگلرز کو گرفتار کر لیا۔
ایف آئی اے لاہور زون کا انسانی اسمگلرز کے خلاف کریک ڈاؤن جاری ہے اور ایف آئی اے اینٹی ہیومن ٹریفکنگ سرکل لاہور نے یونان کشتی حادثے میں ملوث انسانی اسمگلر کو گرفتار کر لیا۔
گرفتار انسانی اسمگلر وارث علی کو شیخوپورہ سے گرفتار کیا گیا جس نے شہری کو یورپ کا جھانسہ دے کر بیرون ملک بھیجنے کے لیے 20 لاکھ روپے بٹورے۔
گرفتار ملزم متاثرین کو پاکستان سے لیبیا اور پھر لیبیا سے یونان بذریعہ کشتی بھجوانے میں ملوث تھا اور اس کے خلاف کارروائی ایف آئی اے لنک آف یونان کی نشاندہی پر کی گئی۔
یونان کشتی حادثے میں ملوث عناصر کے خلاف کارروائی کے لیے مزید چھاپہ مار ٹیمیں تشکیل دے دی گئی ہیں اور ملزم کے دیگر ساتھیوں کی گرفتاری کے لیے بھی چھاپے مارے جا رہے ہیں۔
اینٹی ہیومن ٹریفکنگ سرکل لاہور نے یونان کشتی حادثے میں اب تک 11 مقدمات درج کیے ہیں اور 3 انسانی اسمگلرز کو گرفتار کیا ہے۔
ایف آئی اے کے ترجمان کے مطابق ڈپٹی ڈائریکٹر ریاض خان کی زیر نگرانی ٹیمیں مختلف علاقوں میں چھاپہ مار کارروائیاں جاری رکھے ہوئے ہیں اور مختلف علاقوں میں تکنیکی بنیادوں پر کارروائیاں کی جارہی ہیں، جبکہ چھاپہ مار ٹیمیں ملزمان کی گرفتاری کے لیے لواحقین کے ساتھ بھی مسلسل رابطے میں ہیں۔
دوسری جانب ڈائریکٹر ایف آئی اے لاہور زون سرفراز خان ورک کی ہدایت پر انسانی اسمگلرز کے خلاف جاری کریک ڈاؤن کے دوران ایف آئی اے کے اینٹی ہیومن ٹریفکنگ سرکل گجرات نے یونان کشتی حادثے میں ملوث 4 انسانی اسمگلرز کو گرفتار کر لیا۔
ان چاروں انسانی اسمگلرز کو منڈی بہاالدین اور گجرات سے گرفتار کیا گیا جنہوں نے متعدد شہریوں کو یورپ کا جھانسہ دے کر بیرون ملک بھیجنے کے لیے کروڑوں روپے بٹورے۔
گرفتار ملزمان میں محمد مدثر، سید اویس شاہ، اورنگزیب اور جہانزیب شامل ہیں جو متاثرین کو پاکستان سے لیبیا اور لیبیا سے یونان بذریعہ کشتی بھجوانے میں ملوث تھے اور 4 متاثرہ شہریوں سے فی کس 25 لاکھ روپے بٹورے۔
ملزمان کے خلاف کارروائی متاثرین کے لواحقین کی نشاندہی پر کی گئی جن کے پیارے یونان کے کشتی حادثے میں جاں بحق ہوگئے تھے۔
ایف آئی اے کے ترجمان کے مطابق ملزمان کی گرفتاری کے لیے تمام تر وسائل کو بروے کار لایا جارہا ہے اور گرفتار ملزمان کو قانون کے مطابق کیفر کردار تک پہنچایا جائے گا۔
خطے کا بدترین سمندری حادثہ
یاد رہے کہ گزشتہ ماہ یونان کے قریب بحیرہ روم میں تقریباً 400 پاکستانیوں سمیت 800 تارکین وطن کو لے کر جانے والی کشتی ڈوب گئی تھی جن میں سے محض 104 افراد کو زندہ ریسکیو کیا جاسکا تھا جبکہ سیکڑوں افراد لاپتا ہو گئے تھے جن میں سے اکثر کے زندہ بچنے کے امکانات تقریباً صفر ہیں۔
وزیر داخلہ رانا ثنااللہ نے اپنے بیان میں کہا تھا کہ جاں بحق ہونے والے 82 پاکستانی متاثرین کی لاشوں کو نکال لیا گیا جب کہ اس بات کو یقینی بنانے کے لیے قوانین میں ترامیم زیر غور ہیں کہ انسانی اسمگلنگ میں ملوث افراد اور لوگوں کو بیرون ملک بھیجنے کے لیے غیر قانونی طریقے استعمال کرنے والوں کو مناسب سزا کا سامنا کرنا پڑے۔
خیال کیا جاتا ہے کہ مختلف ممالک کے کئی سو افراد اس کشتی پر سوار تھے اور اس حادثے کو خطے میں گزشتہ کئی برسوں کے دوران پیش آنے والا بدترین سمندری سانحہ قرار دیا جا رہا ہے۔
پاکستانی حکومت نے مرنے والوں کی شناخت میں یونان کی مدد کے لیے ڈی این اے سیمپلز لیے تھے۔
ایف آئی اے کی جانب سے شیئر کیے گئے اعداد و شمار میں بتایا گیا تھا کہ 181 افراد کا تعلق پاکستان کے چاروں صوبوں اور 28 کا آزاد و خود مختار جموں و کشمیر سے ہے، حکام نے 201 خاندانوں سے ڈی این اے نمونے حاصل کیے تھے۔
عینی شاہدین نے بتایا تھا کہ 400 سے 750 کے درمیان لوگ 20 سے 30 میٹر لمبی (65 سے 100 فٹ) ماہی گیری کے لیے استعمال ہونے والی کشتی پر سوار تھے، کشتی 14 جون کی صبح جنوبی ساحلی ٹاؤن پائلوس سے تقریباً 50 میل (80 کلومیٹر) دور الٹنے کے بعد ڈوب گئی تھی۔