سپریم کورٹ کے ججز نے فوجی عدالتوں سے متعلق کیس کے بینچ پر اپنے اعتراضات جاری کردیے
فوجی عدالتوں میں شہریوں کے ٹرائل کے خلاف درخواستوں کی سماعت کے لیے بنائے گئے سپریم کورٹ کے ابتدائی 9 رکنی بینچ میں شامل 2 ججز نے علیحدہ علیحدہ نوٹ جاری کردیے۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق جسٹس سردار طارق مسعود نے کہا کہ وہ لارجر بینچ سے دستبردار نہیں ہوئے تھے جب کہ جسٹس سید منصور علی شاہ نے کہا کہ انہوں نے کچھ تحفظات کے ساتھ 7 ججز پر مشتمل نئے بینچ میں بیٹھنے کا فیصلہ کیا تھا۔
خیال رہے کہ چیف جسٹس نے 21 جون کو عام شہریوں کے فوجی ٹرائل کے خلاف اپیلوں کی سماعت کے لیے 9 رکنی بینچ تشکیل دیا تھا۔
تاہم جب اگلے روز کارروائی شروع ہوئی تھی تو جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے پہلے بینچز کی تشکیل پر تنازع حل کرنے کا مطالبہ کیا اور جسٹس طارق مسعود نے ان کے مؤقف کی تائید کی۔
اس کے بعد بینچ کو 7 ججوں تک محدود کردیا گیا، کچھ روز بعد جسٹس منصور علی شاہ نے حکومت کے اعتراضات کے بعد خود کو بینچ سے الگ کرلیا جس کے بعد بینچ میں 6 ارکان رہ گئے تھے۔
اس ضمن میں منگل کو جاری کردہ اپنے نوٹ میں جسٹس طارق مسعود نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے نقطہ نظر کی تائید کی اور وضاحت کی کہ بینچ میں ان کا نام شامل کرنے سے قبل چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ان سے مشاورت نہیں کی تھی۔
انہوں نے کہا کہ حیرت کی بات یہ ہے کہ یہ درخواستیں اس وقت سماعت کے لیے مقرر کی گئیں جب صرف ایک روز قبل درخواست گزاروں میں سے ایک پٹیشنر اور ان کے وکیل، چیف جسٹس سے ان کے چیمبر میں ملے اور اگلے روز ان درخواستوں کو بغیر کسی مشاورت یا ان کی دستیابی کا معلوم کیے بغیر مقرر کردیا گیا۔
جسٹس طارق مسعود نے کہا کہ میں سپریم کورٹ (پریکٹس اینڈ پروسیجر) ایکٹ 2023 کو چیلنج کرنے والی درخواستوں کے فیصلے کا انتظار کر رہا تھا، توقع تھی کہ اس کا فیصلہ جلد کرلیا جائے گا کیوں کہ اس پر جاری عبوری حکم امتناع نے قانون کی کارروائی کو معطل کردیا تھا۔
جسٹس طارق مسعود کا مزید کہنا تھا کہ جب ایکٹ کے خلاف حکم امتناع جاری کیا گیا تو وہ ان درخواستوں کے حتمی فیصلے تک عدالتی بینچ میں بیٹھنے سے گریزاں تھے جن میں یہ قانون چیلنج کیا گیا تھا، لیکن چونکہ وہ اس بینچ کی سربراہی کر رہے تھے جس کے سامنے جیل میں قید اور سزا کے خلاف اپنی درخواستوں/اپیلوں کے فیصلے کا انتظار کرنے والے شہریوں کے روزانہ تقریباً 30 سے 35 فوجداری مقدمات مقرر کیے جاتے تھے، اس لیے وہ کام کرتے رہے لیکن چیف جسٹس سے درخواست کی کہ اس ایکٹ کے خلاف دائر درخواستوں کو جلد نمٹایا جائے۔
انہوں نے اس بات پر افسوس کا اظہار کیا کہ فوجی عدالتوں میں ٹرائل کے خلاف یہ درخواستیں لوگوں نے دائر کی تھیں جنہیں 9 مئی کو کیے گئے مبینہ جرائم کے حوالے سے بظاہر حراست میں نہیں لیا گیا اور نہ ہی انہیں مقدمات کا سامنا ہے۔
انہوں نے کہا کہ کسی قانون کو عام طور پر آئین کے آرٹیکل 199 کے تحت ہائی کورٹ کے سامنے چیلنج کیا جاتا ہے، لیکن زیر بحث درخواستیں آرٹیکل 184(3) کے تحت دائر کی گئی تھیں، جس کا دائرہ اختیار صرف عوامی مفاد میں بنیادی حقوق کو نافذ کرنے کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔
جسٹس طارق مسعود نے واضح کیا کہ وہ بینچ سے دستبردار نہیں ہوئے تھے اس لیے 7 ججوں پر مشتمل نیا بینچ تشکیل دینے کے حکم نامے پر دستخط کرنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا، جب کہ ان کا مؤقف تھا کہ ان درخواستوں پر سماعت سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کے خلاف دائر پٹیشنز پر فیصلے کے بعد کی جائے۔
دوسری جانب جسٹس منصور علی شاہ نے وضاحت کی کہ ماضی قریب میں عوامی اہمیت کے حامل مقدمات کے لیے تمام ججوں پر مشتمل فل کورٹ بنانے میں ہچکچاہٹ کا مظاہرہ کیا گیا، اس کے برعکس بعض ججوں پر مشتمل خصوصی بینچوں کی تشکیل کا ایک سلسلہ نظر آیا، جس کے شہریوں کی سیاسی، سماجی و معاشی زندگی اور ان کے بنیادی حقوق پر دور رس اثرات مرتب ہوتے ہیں۔
جسٹس منصور علی شاہ نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ میرے خیال میں فل کورٹ بینچ کی عدم تشکیل نے عدالت کے اختیار اور اس کے فیصلوں کے جواز کو بری طرح مجروح کیا ہے، مزید کہا کہ موجودہ کیس میں اس معاملے کی آئینی اہمیت اور اس کے ممکنہ اثرات، عدالتی جانچ کی اعلیٰ ترین سطح پر زور دیتے ہیں۔