وزیراعلیٰ گلگت بلتستان خالد خورشید جعلی ڈگری کیس میں نااہل قرار
گلگت بلتستان کی چیف کورٹ نے وزیر اعلیٰ خالد خورشید خان کو جعلی ڈگری کیس میں نااہل قرار دے دیا۔
جسٹس ملک عنایت الرحمٰن، جسٹس جوہر علی اور جسٹس محمد مشتاق پر مشتمل تین رکنی بینچ نے وزیر اعلیٰ کے خلاف نااہلی کی درخواست پر فیصلہ جاری کیا۔
ڈان اخبار کی 10 جون کی رپورٹ کے مطابق پیپلز پارٹی کے رکن گلگت بلتستان اسمبلی غلام شہزاد آغا نے وزیر اعلیٰ خالد خورشید خان کی قانون کی ڈگری چیلنج کرتے ہوئے آئین پاکستان کے آرٹیکل 62 اور 63 کے تحت ان کی نااہلی کا مطالبہ کیا تھا۔
ابتدائی طور پر کیس کی سماعت جسٹس ملک عنایت الرحمان اور جسٹس جوہر کر رہے تھے، بعد ازاں وزیر اعلیٰ کی طرف سے کیس کی اہمیت کے پیش نظر لارجر بینج بنانے کی درخواست پر چیف جسٹس چیف کورٹ علی بیگ نے بینج میں ایک اور جج کو بھی شامل کر دیا تھا۔
29 مئی کو عدالت کے چیف جج علی بیگ نے جسٹس ملک عنایت الرحمٰن، جسٹس جوہر علی اور جسٹس محمد مشتاق پر مشتمل لارجر بینچ تشکیل دیا تھا، جسے روزانہ کی بنیاد پر سماعت کرنے اور 14 روز کے اندر کیس ختم کرنے کی ہدایت کی گئی تھی۔
گلگت بلتستان کی چیف کورٹ نے وزیر اعلیٰ خالد خورشید خان کو جعلی ڈگری جمع کرانے پر نااہل کیے جانے کی درخواست پر جواب داخل کرنے کے لیے 13 جون تک کی مہلت دے تھی۔
درخواست گزار غلام شہزاد آغا نے اپنے وکیل امجد حسین کے ذریعے مؤقف اختیار کیا تھا کہ وزیر اعلیٰ کی جمع کرائی گئی ڈگری کی لندن یونیورسٹی سے تصدیق نہیں ہوئی اور ہائر ایجوکیشن کمیشن نے اسے جعلی قرار دیا ہے۔
عدالت نے اس معاملے پر ایچ ای سی، وزیر اعلیٰ، گلگت بلتستان بار کونسل اور الیکشن کمیشن کو نوٹس جاری کرتے ہوئے جواب جمع کرانے کا حکم دیا تھا۔
ایچ ای سی نے عدالت کو بتایا تھا کہ یونیورسٹی آف لندن کی جانب سے وزیر اعلیٰ کی ڈگری کو جعلی قرار دینے کے بعد اس نے خالد خورشید کو جاری کی گئی ایل ایل بی کی ڈگری واپس لے لی ہے۔
ڈان سے بات کرتے ہوئے وکیل امجد حسین نے کہا تھا کہ خورشید خان نے جعلی ڈگری کی بنیاد پر جی بی بار کونسل سے لائسنس حاصل کیا تھا۔
انہوں نے الزام لگایا تھا کہ وزیراعلیٰ نے ایچ ای سی سے مساوات کا سرٹیفکیٹ لے کر ایک اور غلطی کی۔
درخواست گزار کے وکیل امجد حسین ایڈووکیٹ نے مقدمے کی روزانہ کی بنیاد پر سماعت کی استدعا کی تھی، جسے قبول کرتے ہوئے چیف جسٹس چیف کورٹ نے احکامات جاری کر دیے تھے۔
ہائر ایجوکیشن کمیشن، الیکشن کمیشن آف گلگت بلتستان، گلگت بلتستان حکومت، گلگت بلتستان بار کونسل اور وزیراعلیٰ کے وکلا نے آج دلائل مکمل کیے اور 20 منٹ کے وقفے کے بعد فریقین کو طلب کر کے فیصلہ سنا دیا گیا۔
چیف کورٹ نے وزیراعلیٰ خالد خورشید کو جعلی ڈگری ثابت ہونے پر 5 سال کے لیے نااہل قرار دیا۔
درخواست گزار کے وکیل امجد ایڈووکیٹ نے فیصلے کے بعد کہا کہ ’وزیراعلیٰ نے بار کونسل میں وکالت کا لائسنس لینے کے لیے امریکی یونیورسٹی کی ڈگری جمع کرائی تھی جسے ایگزیکٹ نے جاری کیا تھا، بعد ازاں اس غیر مستند ڈگری کو چیلنج کرنے پر بار کونسل سے ریکارڈ غائب کر دیا گیا‘۔
ان کا کہنا تھا کہ ’لندن کی ایک یونیورسٹی کی جعلی ڈگری عدالت میں جمع کرا دی گئی تھی اور آج وہ ڈگری بھی جعلی ثابت ہوگئی، جس پر وزیر اعلیٰ نااہل ہوگئے‘۔
خالد خورشید کے وکیل اسد اللہ ایڈووکیٹ کا کہنا تھا کہ فیصلہ ہمارے توقعات کے برعکس آیا ہے اور تفصیلی فیصلہ جاری ہونے کے بعد سپریم اپیلٹ کورٹ گلگت بلتستان میں اپیل دائر کر دیں گے۔
ان کا کہنا تھا کہ اس کے علاہ بھی کوئی آپشن نظر آیا تو وہ بھی استعمال کریں گے۔
اس سے قبل ازیں میڈیا سے گفتگو میں انہوں نے کہا تھا کہ ڈگری کیس کا روزانہ کی بنیاد پر سماعت کا غیر متوقع حکم کئی سوالات کو جنم دیتا ہے۔
دوسری جانب فیصلے کے بعد عدالت کے باہر پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) اور پی ٹی آئی کے کارکنوں نے نعرہ بازی کی، پی پی پی کے جیالوں نے پارٹی کے صوبائی صدر امجد ایڈووکیٹ، بلاول بھٹو اور آصف زرداری کے حق میں نعرے لگائے جبکہ پی ٹی آئی کے کارکنوں نے عمران خان اور خالد خورشید کے حق میں نعرہ بازی کی۔
اس موقع پر دونوں جماعتوں کے کارکنوں میں تصادم ہوتے ہوتے رہ گیا، پولیس نے دونوں جماعتوں کے کارکنوں کو مخالف سمت کی طرف منتقل کر کے حالات پر قابو پا لیا۔
پارلیمانی پارٹی کے اجلاس میں وزیراعلیٰ کے امیدوار کا فیصلہ ہوگا، خالد خورشید
خالد خورشید نے جعلی ڈگری کیس میں عدالت کی جانب سے فیصلے آنے کے بعد میڈیا سے گفتگو میں کہا کہ گلگت بلتستان میں تحریک انصاف کی پھر حکومت بنے گی، آج پارلیمانی پارٹی کا اجلاس ہو گا، جس میں وزارت اعلیٰ کے لیے نیا امیدوار سامنے لایا جائے گا ۔
ان کا کہنا تھا کہ گلگت بلتستان سے چیئرمین پی ٹی آئی کی تصویر اور تحریک انصاف کا جھنڈا اتارنے کی خواہش رکھنے والوں کے خلاف آخری دم تک لڑتے رہے گے۔
انہوں نے کارکنوں پر زور دیا کہ عدالتی فیصلے پر مایوس نہ ہوں، یہ اللہ کی آزمائش تھی جس نے ایک ورکر کو ڈھائی سال تک وزیر اعلیٰ کے عہدے پر خدمات انجام دینے کا موقع دیا، اب نیا قائد ایوان لاکر چند دن آرام کروں گا تاہم پارٹی کے معاملات اور کارکنوں کے امور چلاتا رہوں گا۔
خالد خورشید کا کہنا تھا کہ چیئرمین پی ٹی آئی کے ساتھ زمان پارک میں پارٹی امور میں معاونت کروں گا۔
سابق وزیر اعلی نے کہا کہ جو قانون و آ ئین کے ساتھ گندا کھیل ملک میں کھیلا گیا وہ گلگت بلتستان میں بھی کھیلا گیا حالانکہ یہاں تو آ ئین ہی نہیں ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ مجھے اسمبلی توڑنے کے لیے کہا گیا تو میں نے جواب دیا کہ ہم کیوں اسمبلی توڑیں گے، ہماری تو اسمبلی میں اکثریت ہے ہم کیوں اسے توڑیں؟ میری جگہ تحریک انصاف کا ایک کارکن ہی وزیراعلیٰ بنے گا۔
عدالت کی جانب سے نااہل قرار دینے پر ان کا کہنا تھا کہ جب فیصلہ آیا تو شکریہ ادا کیا کیونکہ میری ذاتی کوئی حیثت نہیں تھی، اللہ نے عہدے سے نوازا تھا انسان کی عزت عہدے میں نہیں اس کے کردار میں ہوتی ہے جو لوگ ایک فیصلے سے وقتی طور خوش ہو رہے ہیں وہ رسوا ہوں گے۔
وزیراعلیٰ کے خلاف تحریک عدم اعتماد
اس سے قبل آج صبح گلگت بلتستان کی اپوزیشن جماعتوں سے تعلق رکھنے والے ارکین اسمبلی نے خالد خورشید کے خلاف تحریک عدم اعتماد اسمبلی سیکریٹریٹ میں جمع کرائی تھی۔
گلگت بلتستان اسمبلی کے سیکریٹری عبدالرزاق نے تحریک عدم اعتماد جمع ہونے کی تصدیق کرتے ہوئے کہا تھا کہ تحریک عدم اعتماد پر 9 اراکین اسمبلی کے دستخط موجود ہیں، اس پر مزید قانونی کارروائی آگے بڑھائی جا رہی ہے۔
گلگت بلتستان اسمبلی سیکریٹریٹ سے جاری نوٹس میں کہا گیا کہ ’گلگت بلتستان آرڈر 2018 کی شق 40 اور گلگت بلتستان اسمبلی رولز آف پروسیجر اینڈ کنڈکٹ آف بزنس 2017 کے تحت اسمبلی کے رکن غلام محمد نے آج (4 جولائی) وزیر اعلیٰ خالد خورشید کو ہٹانے کے لیے تحریری طور سیکریٹریٹ کو نوٹس بھیجا ہے کہ قرارداد پیش کی جائے‘۔
اس حوالے سے گورنر گلگت بلتستان اور دیگر اراکین اسمبلی کو تحریک سے آگاہ کردیا گیا تھا۔
واضح رہے کہ عدالت سے نااہلی کا سامنا کرنے والے وزیر اعلیٰ خالد خورشید پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) گلگت بلتستان کے صوبائی صدر بھی ہیں۔
خالد خورشید 2020 کے عام انتخابات میں کامیابی کے بعد وزیر اعلیٰ گلگت بلتستان منتخب ہوئے تھے۔
گلگت بلتستان کے 2020 کے انتخابات میں پی ٹی آئی نے 10 نشستوں پر کامیابی حاصل کی تھیاور کامیاب ہونے والے 7 آزاد ارکان کی حمایت سے خطے کی حکومت تشکیل دی تھی۔