’قابل نفرت عمل‘، دفتر خارجہ کی سوئیڈن کی مسجد کے باہر قرآن پاک کی بے حرمتی کی مذمت
دفتر خارجہ نے عیدالاضحیٰ کے موقع پر سوئیڈن کی ایک مسجد کے باہر قرآن پاک کی بے حرمتی کے ’قابل نفرت عمل‘ کی شدید مذمت کی ہے۔
یاد رہے کہ سوئیڈن کے شہر اسٹاک ہوم کی مرکزی مسجد کے باہر ایک شخص نے قرآن پاک کی بے حرمتی کرتے ہوئے مقدس اوراق کو پھاڑ کر نذر آتش کردیا۔
سوئیڈش پولیس نے قرآن پاک کو نذر آتش کرنے والے شخص پر نسلی یا قومی گروہ کے خلاف اشتعال انگیزی اور اسٹاک ہوم میں لگائی گئی آگ پر پابندی کی خلاف ورزی کا الزام عائد کیا ہے۔
آج جاری کردہ ایک بیان میں دفتر خارجہ نے کہا کہ اظہار رائے اور احتجاج کی آزادی کے نام پر امتیازی سلوک، نفرت اور تشدد کے لیے اس طرح کی جان بوجھ کر اکسانے کو جائز قرار نہیں دیا جا سکتا۔
انہوں نے کہا کہ بین الاقوامی قانون کے تحت تمام ممالک پر فرض ہے کہ وہ مذہبی منافرت پر مبنی ایسے واقعات کو روکیں جو تشدد بھڑکانے کا باعث بنتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ مغربی ممالک میں پچھلے چند مہینوں کے دوران اس طرح کے اسلامو فوبک واقعات اس قانونی فریم ورک پر سنگین سوالات اٹھاتے ہیں جو نفرت پر مبنی ایسی کارروائیوں کی اجازت دیتا ہے۔
دفتر خارجہ نے کہا کہ ہم اس بات کا اعادہ کرتے ہیں کہ آزادی اظہار رائے کا حق کسی کو بھی نفرت کو ہوا دینے اور بین المذاہب ہم آہنگی کو سبوتاژ کرنے کا لائسنس فراہم نہیں کرتا ہے۔
اس حوالے سے مزید کہا گیا کہ واقعے پر پاکستان کے تحفظات سوئیڈن تک پہنچائے جا رہے ہیں۔
دفتر خارجہ نے بین الاقوامی برادری اور قومی حکومتوں پر زور دیا کہ وہ زینوفوبیا، اسلاموفوبیا اور مسلم مخالف نفرت کے بڑھتے ہوئے ایسے واقعات کی روک تھام کے لیے قابل اعتماد اور ٹھوس اقدامات کریں۔
سعودی عرب اور ترکی مذمت، مراکش نے سفیر واپس بلا لیا
ادھر سعودی عرب، مراکش اور ترکیہ نے بھی قرآن پاک کے اوراق نذر آتش کرنے کے اس گھناؤنے اور اشتعال انگیزی پر مبنی فعل کی شدید مذمت کی ہے۔
سرکاری خبر رساں ایجنسی ایس پی اے کے مطابق وزارت خارجہ نے ایک بیان میں واقعے کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ بار بار کی جانے والی نفرت انگیزی پر مبنی ان کارروائیوں کے لیے کوئی بھی جواز قابل قبول نہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ نفرت اور نسل پرستی کو ہوا کے مترادف ہے اور رواداری، اعتدال پسندی کی اقدار کو پھیلانے کے لیے کی جانے والی بین الاقوامی کوششوں کے براہ راست متصادم ہیں۔
انہوں نے باور کرایا کہ اس طرح کے واقعات ریاستوں اور افراد کے درمیان تعلقات کے لیے ضروری تصور کیے جانے والے باہمی احترام کو سبوتاژ کرتے ہیں۔
اس واقعے کے بعد مراکش نے احتجاجاً اپنے سفیر کو سوئیڈن سے غیرمعینہ مدت کے لیے واپس بلا لیا ہے۔
اس کے علاوہ مراکش کی وزارت خارجہ نے رباط میں سوئیڈن کے ناظم الامور کو طلب کر کے واقعے پر شدید احتجاج کیا اور اس طرح کے واقعات کو ناقابل قبول قرار دیا۔
دوسری جانب ترکیہ کے وزیر خارجہ نے سوئیڈن میں قرآن مجید کی بے حرمتی کی مذمت کرتے ہوئے اسے ’گھناؤنا‘ اور ’قابل نفرت‘ فعل قرار دیا ہے۔
ترک وزیر خارجہ ہاکان فیدان نے سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر بیان میں کہا کہ عید الاضحی ٰ کے پہلے روز قرآن پاک کی بے حرمتی کے اس گھناؤنی فعل پر لعنت بھیجتا ہوں، آزادیِ اظہار رائے کے نام پر ایسے اسلام مخالف اقدامات کی بالکل ناقابلِ قبول ہیں۔
انھوں نے مزید کہا کہ اس طرح کے کاموں سے آنکھیں بند کرنے کا مطلب شریک جرم ہونے کے مترادف ہے۔
جارحانہ عمل
کئی سال پہلے عراق سے فرار ہو کر سوئیڈن آنے والے 37 سالہ سلوان مومیکا نے بدھ کے روز پولیس سے ’قرآن کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کرنے‘ کے لیے اس فعل کے ارتکاب کی اجازت طلب کی تھی۔
احتجاج سے قبل سلوان مومیکا نے نیوز ایجنسی ٹی ٹی کو بتایا کہ وہ آزادی اظہار کی اہمیت کو بھی اجاگر کرنا چاہتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ یہ جمہوریت ہے، اگر وہ ہمیں بتائیں کہ ہم ایسا نہیں کر سکتے تو اس کا مطلب ہے کہ جمہوریت خطرے میں ہے۔
جائے وقوع پر موجود صحافیوں نے بتایا کہ اس شخص نے مختلف اوقات میں قرآن پاک کے نسخوں پر پتھراؤ کیا اور سوئیڈش کے جھنڈے لہراتے ہوئے چند صفحات کو آگ لگا دی۔
اس سال کے اوائل میں ڈنمارک کی انتہائی دائیں بازو کی جماعت اسٹرام کرس کے رہنما پالوڈن نے جمعے کے روز ڈنمارک کی ایک مسجد کے سامنے قرآن پاک کا نسخہ نذر آتش کر دیا تھا جس پر دنیا بھر کے مسلمانوں نے شدید غم و غصہ کا اظہار کیا تھا۔
انہوں نے 21 جنوری کو بھی اسی طرح کی بے حرمتی کرتے ہوئے سوئیڈن میں ترک سفارت خانے کے سامنے اسلام اور امیگریشن مخالف مظاہرے کے دوران قرآن پاک کے ایک نسخے کو نذر آتش کردیا تھا۔