• KHI: Zuhr 12:18pm Asr 4:07pm
  • LHR: Zuhr 11:48am Asr 3:24pm
  • ISB: Zuhr 11:54am Asr 3:24pm
  • KHI: Zuhr 12:18pm Asr 4:07pm
  • LHR: Zuhr 11:48am Asr 3:24pm
  • ISB: Zuhr 11:54am Asr 3:24pm

امریکا کو نریندر مودی کی ضرورت کیوں ہے؟

شائع July 3, 2023

لکھاری نئی دہلی میں ڈان کے نمائندے ہیں۔
لکھاری نئی دہلی میں ڈان کے نمائندے ہیں۔

25 جون کو بھارت میں سابق وزیراعظم اندرا گاندھی کی جانب سے ایمرجنسی لگائے جانے کو 48 برس ہوگئے ہیں۔ اندرا گاندھی نے اس ایمرجنسی کے لیے اندرونی خلفشار کو محرک قرار دیا تھا۔ 77-1975ء میں اندرا گاندھی کی حکومت میں لگائے جانے والی 21 ماہ کی ایمرجنسی سے نریندر مودی کی 9 سالہ کی حکومت کا موازنہ کیا جارہا ہے۔ مودی کی حکومت ہندو بالادستی کے لیے بھارت کی سیکولر جمہوریت کو ختم کرنے میں مصروفِ عمل ہے۔

ہم آہنگی کی روایات کو کمزور کرنے کے لیے بھارت میں لوگوں کے درمیان نسلی اور مذہبی تفریق پیدا کرنے کی حکمتِ عملی اپنائی جارہی ہے جس نے منی پور میں اپنا رنگ دکھایا ہے۔ بالکل اسی طرح جموں و کشمیر میں بھی عوام میں پھوٹ ڈالنے کے لیے یہی حکمتِ عملی اپنائی گئی تھی۔ جواہرلال نہرو یونیورسٹی کے سابق طالبِ علم عمر خالد نے بہت سے دیگر مخالفین اور صحافیوں کی طرح حال ہی میں نریندر مودی حکومت کی جیل میں ایک ہزار دن مکمل کیے ہیں۔ یہ اس عرصے سے بہت زیادہ ہے جو اندرا گاندھی کے مخالفین نے قید میں گزارا۔

لیکن کیا مغرب کے اتحادی کے طور پر مودی کا عروج، جنوبی ایشیا میں جمہوریت سے ہونے والی ایک اور بغاوت سے مماثلت رکھتا ہے جب آمر ضیاالحق نے پاکستان میں اقتدار پر قبضہ کیا اور ملک میں تنگ نظر مذہبی آمریت نافذ کی۔

اگرچہ اس بھیانک منظرنامے میں ضیاالحق کا کردار جلد افغانستان میں القاعدہ اور طالبان کی صورت میں سامنے آیا لیکن پاکستان کے اندرونی معاملات میں امریکا کے کردار پر اتنی بات چیت نہیں کی جاتی۔

ایک جانب پاکستان کے عوام سے جمہوریت کی جلد بحالی کے جھوٹے وعدے کیے گئے جبکہ دوسری جانب آمر حکمران نے معزول جمہوری وزیرِاعظم کو تختہِ دار پر چڑھا دیا ساتھ ہی ملک سوویت یونین کو افغانستان سے نکالنے کے لیے جغرافیائی سیاست کا آلہِ کار بنا۔ یہ گٹھ جوڑ سوویت یونین کے زوال میں اہم عنصر ثابت ہوا۔

یہ سوال خاص طور پر اس وقت پیدا ہوا جب بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے امریکی صدر جو بائیڈن کی دعوت پر امریکا کا دورہ کیا۔ تو کیا 80-1970ء کی دہائی میں ضیاالحق کی طرح اب امریکا چین کو کمزور کرنے کے لیے نریندر مودی کو استعمال کرنا چاہتا ہے؟

کیا امریکا سے اتحاد کے لیے بھارت کی اس پیش رفت کو نئی سرد جنگ کے طور پر دیکھا جاسکتا ہے؟ اگر جواب ’ہاں‘ ہے اور اگر مودی کی قیادت میں بھارت سے ایسے ہی کردار کی توقع ہے جیسا ہمیں اس وقت نظر آرہا ہے تو پھر جمہوریت کے بارے میں امریکا کی بڑی بڑی باتوں پر کیا کہا جائے؟ جو بائیڈن کے ساتھ پریس کانفرنس میں نریندر مودی سے جمہوریت کی پسپائی کے حوالے سے جو سوالات پوچھے گئے یا انہوں نے ان سوالات کو جس طرح نظر انداز کیا اس سے بھی کسی نے کوئی نتیجہ اخذ نہیں کیا۔

اصل مسئلہ یہ ہے کہ امریکا ماضی کی طرح ایک بار پھر جمہوریت کی تباہی میں ملوث ہورہا ہے۔ جو سوال نریندر مودی سے پوچھا گیا وہ دراصل جو بائیڈن سے پوچھا جانا چاہیے تھا۔ ان کے بڑے بڑے دعوے کھوکلے ثابت ہوئے ہیں۔ اس کی ایک مثال افغانستان بھی ہے جہاں امریکا نے ملک کو طالبان کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا جو 20 برسوں سے افغانستان سے امریکی انخلا کے انتظار میں تھے۔

ماضی کے کابل میں خواتین 1970ء کی دہائی میں یونیورسٹیز جایا کرتی تھیں اور لڑکیاں لڑکوں کے ساتھ پڑھتی تھیں۔ جب امریکا وہاں مذہبی تعصبات کی تخلیق میں نہیں ہچکچایا تو آخر بھارت کے ہندو راشٹرا بننے کے امکانات امریکا کو کیوں پریشان کریں گے؟

بھارت کے اندرونی اور بیرونی سیاسی مباحث میں ہر سال جون کا مہینہ یہ یاد دلاتا ہے کہ اندرا گاندھی نے کیسے جمہوریت کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کی تھی اور کیسے ان کی ایمرجنسی کا دور ناکام ثابت ہوا تھا۔ جبکہ دوسری جانب ضیاالحق کا 11 سالہ آمرانہ دور مغرب میں بہت سراہا جاتا ہے اور اسے سوویت یونین کے خاتمے کے لیے یاد کیا جاتا ہے۔

لیکن وہ کیا وجوہات تھیں جن کی بنا پر اندرا گاندھی نے ملک میں جمہوریت کو معطل کیا؟ ایک مذہبی تحریک جماعتِ اسلامی اور ہندو انتہا پسند جماعت آر ایس ایس دونوں ہی ان کے نشانے پر تھیں ساتھ ہی رام منوہر لوہیا کے ’سوشلسٹ‘ بھی جن کی قیادت جارج فرنینڈس کر رہے تھے۔ چین کے حامی کمیونسٹ گروپس خصوصاً جیوتی باسو بھی اندرا گاندھی کے ہدف پر تھے۔

روس کی حامی کمیونسٹ پارٹی اور بال ٹھاکرے کی شیو سینا نے ملک میں ایمرجنسی کے نفاذ کی حمایت کی تھی۔ جب انہوں نے ملک میں ایمرجنسی کا خاتمہ کرکے انتخابات کا انعقاد کروایا تو بھارت کے جنوبی حصے نے ان کی حمایت کی جبکہ شمالی حصہ ان کی پارٹی کو رد کرچکا تھا۔

یہ عالمی معاملہ نریندر مودی کے عروج اور امریکا کے ساتھ ان کے ہاتھ ملا لینے سے واضح ہے۔ لیکن اندرا گاندھی کی ایمرجنسی کو عالمی تناظر میں اتنی آسانی سے تسلیم نہیں کیا جاتا۔ کیا اندرا گاندھی سرد جنگ کے خطرے کے تصور کا جواب نہیں دے رہی تھیں جس کا اندازہ ایک نئی تبدیل شدہ سرد جنگ کے حامیوں نے لگایا تھا؟

اندرا گاندھی کی جانب سے 1971ء میں لیونیڈ بریزنیف کے ساتھ دفاعی معاہدے کی وجہ سے بھارت رچرڈ نکسن کی جانب سے ناقابل بیان توہین کا نشانہ بنا۔ ہینری کسینجر بھی اس حوالے سے ایک انتہائی سخت بیان دیا اور جب ہینری کسینجر نے اپنے الفاظ کے چناؤ پر معذرت کی تو انہوں نے سرد جنگ کو ایک چال قرار دیا۔

دراصل یہ امریکا کے لیے ویتنام میں ناکامی کے بعد کا دور تھا جب ہینری کیسنجر کو نوبیل ایوارڈ سے نوازا گیا جسے 1973ء کے معاہدے کے لیے ان کے ویتنامی مزاکرات کار لی ڈک تھو نے بڑی خوش اسلوبی سے ٹھکرا دیا تھا۔ یہ وہی وقت تھا جب بیجنگ اور واشنگٹن مشترکہ طور پر، واحد سوویت نواز جنوبی ایشیائی ملک بھارت کے گرد بحرِ ہند میں فوجی حدبندیاں کرنے والے تھے۔

اس وقت نیا نیا وجود میں آنے والا ملک بنگلادیش بھی روس کی جانب قدم بڑھارہا تھا لیکن پھر 15 اگست 1975ء کو ایک فوجی بغاوت نے مجیب الرحمٰن اور ان کے خاندان کے بیشتر افراد کا خاتمہ کردیا۔ اس وقت بھارت میں اندرا گاندھی کی ایمرجنسی کو صرف دو ماہ کا عرصہ ہی گزرا تھا۔

اس بغاوت نے سیاست کے بھارت مخالف چہرے کو چین اور امریکا سے دوستی میں تبدیل کردیا۔ پاکستان ماؤزے تنگ اور رچرڈ نکسن کے تعلقات کے قیام کا باعث بنا۔ یہ تعقات اس وقت تک پروان چڑھتے رہے جب تک کہ باراک اوباما دورِ صدارت میں ہلیری کلنٹن نے ’پیوَٹ ٹو ایشیا‘ متعارف کروایا جس کی بازگشت چین اور امریکا سے آگے تک بھی محسوس کی جاتی رہی۔

جب من موہن سنگھ یا اے بی واجپائی بھی اتنے ہی امریکا کے حامی تھے جتنے مودی ہیں تو جو بائیڈن نریندر مودی پر اتنا اعتماد کیوں کررہے ہیں؟ دراصل جمہوریتیں سامراجی منصوبوں میں اچھے اتحاد کے طور پر کام نہیں کرتیں۔ ٹونی بلیئر نے اس حوالے سے کوشش کی لیکن انہیں ان کی اپنی پارلیمنٹ کی وجہ سے مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔

یمن میں فوج بھیجنے کی مغرب کی دعوت کو پاکستان کی پارلیمنٹ نے ویٹو کر دیا تھا جبکہ واجپائی نے اتحادیوں کے ردعمل کے خوف سے عراق میں ہندوستانی فوجی نہیں بھیجے تھے۔ اس پس منظر میں دیکھا جائے تو نریندر مودی ایک بہترین امیدوار ہیں۔


یہ مضمون 27 جون 2023ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔

جاوید نقوی

لکھاری نئی دہلی میں ڈان کے نمائندے ہیں۔ ان کا ای میل ایڈریس [email protected] ہے۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔

کارٹون

کارٹون : 20 نومبر 2024
کارٹون : 19 نومبر 2024