وزیراعظم کو ایک، دو روز میں آئی ایم ایف کے فیصلے کی توقع
وزیراعظم شہباز شریف نے عالمی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف) کی سربراہ کرسٹالینا جارجیوا سے ٹیلی فونک رابطے کے بعد امید ظاہر کی ہے کہ پروگرام کے نکات پر ہم آہنگی آئندہ ایک دو دن میں فیصلے کی شکل اختیار کرلے گی۔
وزیر اعظم کی جانب آئی ایم ایف پروگرام کی بحالی کے حوالے سے امید کا اظہار ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جبکہ وہ چند روز کے دوران منیجنگ ڈائریکٹر آئی ایم ایف سے متعدد مرتبہ رابطہ کرچکے، انہوں نے گزشتہ ہفتے پیرس میں ان سے کئی ملاقاتیں بھی کی تھیں۔
وزیر اعظم آفس کی جانب سے جاری بیان کے مطابق وزیراعظم شہباز شریف نے آئی ایم ایف کی منیجنگ ڈائریکٹر کرسٹالینا جارجیوا کو منگل کو علی الصبح ٹیلی فون کیا۔
وزیراعظم اور آئی ایم ایف کی منیجنگ ڈائریکٹر نے آئی ایم ایف پروگرام کے حوالے سے امور پر گفتگو کی۔
شہباز شریف نے معاشی صورتحال کی بہتری کے اہداف مشترکہ کوششوں سے حاصل کرنے کے عزم کا اعادہ کرتے ہوئے امید ظاہر کی کہ آئی ایم ایف پروگرام کے نکات پر ہم آہنگی آئندہ ایک دو روز میں آئی ایم ایف کے فیصلے کی شکل اختیار کرے گی۔
منیجنگ ڈائریکٹر آئی ایم ایف نے وزیراعظم سے پیرس میں ہونے والی ملاقاتوں کے تناظر میں وزیر خزانہ اور ان کی ٹیم کی آئی ایم ایف پروگرام مکمل کرنے کے حوالے سے کوششوں کا اعتراف کیا۔
وزیراعظم نے امید ظاہر کی کہ آئی ایم ایف پروگرام کے نکات پر ہم آہنگی آئندہ ایک دو دن میں آئی ایم ایف کے فیصلے کی شکل اختیار کرے گی۔
انہوں نے معاشی صورتحال کی بہتری کے اہداف مشترکہ کوششوں سے حاصل کرنے کے عزم کا اعادہ کیا۔
منیجنگ ڈائریکٹر آئی ایم ایف نے وزیراعظم سے گفتگوکرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کی معاشی صورتحال کی بہتری چاہتے ہیں، انہوں نے وزیراعظم شہباز شریف کے قائدانہ عزم کو سراہا۔
خیال رہے کہ 6.7 ارب ڈالر قرض پروگرام کی مدت 30 جون کو ختم ہو رہی ہے، اس سے قبل پاکستان کو 2 قسطوں کی مد میں تقریباً 2.2 ارب ڈالر حاصل کرنا ہیں، اسٹیٹ بینک آف پاکستان کو عالمی مالیاتی ادارے سے ساتویں اور آٹھویں مشترکہ جائزے کے بعد ایک ارب 16کروڑ ڈالر کی قسط یکم ستمبر 2022 کو موصول ہوئی تھی۔
آئی ایم ایف نے مالی سال 24-2023 کے بجٹ میں کیے گئے اقدامات پر سوالات اٹھائے تھے جبکہ ریٹنگ ایجنسیوں نے خبردار کیا تھا کہ پاکستان کے پاس آئی ایم ایف بیل آؤٹ پیکیج پر قائل کرنے کے لیے وقت ختم ہورہا ہے۔
آئی ایم ایف کے مطالبات کے مطابق بجٹ پر نظر ثانی کرنے کے بعد حکومت کو اشد ضروری بیل آؤٹ فنڈز حاصل کرنے کے لیے آئندہ چند روز میں عالمی قرض دہندہ ادارے کی جانب سے منظوری کے اعلان کی توقع ہے۔
9 جون کو بجٹ کے اعلان کے بعد پاکستان میں آئی ایم ایف کی نمائندہ ایستھر پیریز روئیز نے عوامی طور پر بجٹ کے اقدامات پر سوال اٹھاتے ہوئے کہا تھا کہ بجٹ نے ٹیکس کی بنیاد کو زیادہ ترقی پسند انداز میں وسیع کرنے کا موقع گنوا دیا اور نئے ٹیکس اخراجات کی طویل فہرست نے ٹیکس کے نظام کی شفافیت کو مزید کم کر دیا۔
ایستھر پیریز روئیز نے اس بات پر بھی تشویش کا اظہار کیا تھا کہ نئی ٹیکس ایمنسٹی اسکیم فنڈ پروگرام کی شرائط اور گورننس کے ایجنڈے کے خلاف ہے اور اس سے ایک غلط مثال قائم ہوئی، انہوں نے حکومت سے بجٹ کو منظور کرنے سے پہلے اسے بہتر کرنے کا کہا تھا۔
پاکستان میں حکام نے کہا کہ اب ان مطالبات کو پورا کرلیا گیا ہے، گزشتہ روز ایک عہدیدار نے کہا کہ ’آئی ایم ایف کے عملے اور وزارت خزانہ کے درمیان تقریباً تمام اضطرابی مسائل کو وزیر خزانہ کی اختتامی بجٹ تقریر سے چند گھنٹے قبل دور کر دیا گیا تھا‘، نویں جائزے کی کامیاب تکمیل کے بارے میں اعلان آئی ایم ایف کا استحقاق ہے اور اب محض رسمی کارروائی ہے۔
عہدیدار نے کہا کہ اب یہ آئی ایم ایف مشن پر منحصر ہے کہ وہ ایگزیکٹو بورڈ کی منظوری اور فنڈز کے اجرا کے لیے حتمی تاریخوں کا تعین کرے، تاہم انہوں نے تسلیم کیا کہ یہ 30 جون تک کے کیلنڈر پر نہیں ہے جب 2019 کے ساڑھے 6 ارب ڈالر کی توسیعی فنڈ سہولت کی میعاد ختم ہونے والی ہے۔
حکومت کی جانب سے بجٹ میں نظر ثانی کے تحت کیے گئے اقدامات میں 215 ارب روپے کے اضافی ٹیکس اقدامات، اخراجات میں 85 ارب روپے کی کٹوتی، غیر ملکی زرمبادلہ کی آمد پر ایمنسٹی واپس لینا، درآمدی پابندیوں کا خاتمہ، بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کی مختص رقم میں 16 ارب روپے کا اضافہ اور پیٹرولیم لیوی 50 روپے سے بڑھا کر 60 روپے فی لیٹر کرنے کے اختیارات شامل ہیں۔