• KHI: Asr 4:13pm Maghrib 5:49pm
  • LHR: Asr 3:27pm Maghrib 5:05pm
  • ISB: Asr 3:27pm Maghrib 5:05pm
  • KHI: Asr 4:13pm Maghrib 5:49pm
  • LHR: Asr 3:27pm Maghrib 5:05pm
  • ISB: Asr 3:27pm Maghrib 5:05pm

حکومت کا تین بڑے ہوائی اڈوں کے بجائے فی الحال اسلام آباد ایئرپورٹ کی آؤٹ سورسنگ کا فیصلہ

شائع June 27, 2023
وزیر خزانہ نے کابینہ کی اقتصادی رابطہ کمیٹی  کے اجلاس کی صدارت بھی کی—تصویر: اے پی پی
وزیر خزانہ نے کابینہ کی اقتصادی رابطہ کمیٹی کے اجلاس کی صدارت بھی کی—تصویر: اے پی پی

حکومت نے فیصلہ کیا ہے کہ ہوائی اڈوں کی آؤٹ سورسنگ کو فی الحال صرف اسلام آباد انٹرنیشنل ایئرپورٹ تک محدود رکھا جائے گا، ساتھ ہی وفاقی بجٹ کی منظوری کے ایک روز بعد بھی تقریباً 21 ارب 40 کروڑ روپے کی 14 ضمنی گرانٹس کی منظوری دی گئی۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق وزیر خزانہ اسحٰق ڈار کی زیر صدارت ہوائی اڈے کے آپریشنز کی آؤٹ سورسنگ سے متعلق اسٹیئرنگ کمیٹی کا اجلاس اتنا ہی الجھن کا شکار دکھائی دیا جتنا کہ لین دین کا مشاورتی ادارہ عالمی بینک کی انٹرنیشنل فنانس کارپوریشن (آئی ایف سی)، بھی اس حوالے سے غیر واضح تھا کہ کیا اسلام آباد، لاہور اور کراچی تینوں بڑے ایئرپورٹس کی آؤٹ سورسنگ کی منصوبہ بندی کی گئی ہے۔

اجلاس کے شرکا عالمی بینک کی انٹرنیشنل فنانس کارپوریشن کی مشاورتی خدمات سے متعلق مالی معاملات کے بارے میں بھی غیر یقینی کا شکار تھے۔

باخبر ذرائع نے ڈان کو بتایا کہ آخر کار یہ نتیجہ اخذ کیا گیا کہ کسی غیر ملکی ادارے کو ہوائی اڈے کے آپریشنز کی آؤٹ سورسنگ پہلے اسلام آباد انٹرنیشنل ایئرپورٹ تک محدود رکھنی چاہیے جس کے بعد میں دیگر کی منظوری کا عمل کیا جانا چاہیے۔

اجلاس کے بعد ایک مبہم مختصر عوامی بیان میں کہا گیا کہ آئی ایف سی نے ’کمیٹی کو ایک پریزنٹیشن دی جس نے سروس ڈیلیوری کو بہتر بنانے اور بہترین بین الاقوامی طریقوں سے مطابقت رکھنے کے لیے پہلے ہوائی اڈے کی آؤٹ سورسنگ کے لیے آگے بڑھنے کے لیے مستقبل کے روڈ میپ کے بارے میں فیصلے کیے‘۔

اگرچہ عجیب بات یہ ہے کہ اقتصادی رابطہ کمیٹی (ای سی سی) نے 31 مارچ کو فیصلہ کیا تھا کہ تین بڑے ہوائی اڈوں پر آپریشنز اور زمینی اثاثوں کی 25 سالہ آؤٹ سورسنگ کا آغاز کیا جائے گا اور انہیں زرِ مبادلہ کے ذخائر بڑھانے کے لیے پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ کے ذریعے چلایا جائے گا۔

اس وقت وزارت خزانہ سے جاری بیان میں کہا گیا تھا کہ ’پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ کے دائرہ کار میں تین ہوائی اڈوں کی آؤٹ سورسنگ کا آغاز کیا گیا ہے تاکہ ہوائی اڈوں کو چلانے کے لیے ایک مسابقتی اور شفاف عمل کے ذریعے نجی سرمایہ کار/ایئرپورٹ آپریٹر کو شامل کرنے، زمینی اثاثوں کو ڈیولپ کرنے اور تجارتی سرگرمیوں کے لیے مواقع کو بڑھانے اور محصول کی صلاحیت سے مکمل فائدہ اٹھایا جائے‘۔

آئی ایف سی اور پاکستان سول ایوی ایشن اتھارٹی (پی سی اے اے) نے بعد ازاں اپریل کے دوسرے ہفتے میں ٹرانزیکشن سروس کے معاہدے پر دستخط کیے تھے جس کے بعد مشیر کی تکنیکی ٹیموں نے تینوں ہوائی اڈوں کے دورے کیے۔

واحد بولی دہندہ آئی ایف سی کو ہر ہوائی اڈے کے لیے 15 لاکھ ڈالر کی شرح سے آؤٹ سورسنگ کی تکمیل پر 40 لاکھ ڈالر کامیابی کی فیس کے علاوہ مرحلہ وار ادائیگی کا ڈھانچہ بھی دیا گیا۔

ضمنی گرانٹس کی منظوری

بعد ازاں وزیر خزانہ نے کابینہ کی اقتصادی رابطہ کمیٹی (ای سی سی) کے اجلاس کی صدارت بھی کی جس میں مختلف وزارتوں اور ڈویژنوں کے لیے 21 ارب 40 کروڑ 8 لاکھ روپے کی 14 ضمنی گرانٹس کی منظوری دی گئی۔

اس اقدام سے سرکاری دفاتر کے پبلک فنانس میکانزم کی کارکردگی کا پتا چلتا ہے جو کہ 9 جون کو قومی اسمبلی میں بجٹ پیش کرنے سے پہلے ان کی فنانسنگ کی ضروریات کو حتمی شکل نہیں دے سکا اور نہ ہی ان پر بروقت کارروائی کر سکا اور یہاں تک کہ پارلیمنٹ نے بجٹ 25 جون کو منظور کر لیا۔

کچھ بڑی ضمنی گرانٹس وزارت منصوبہ بندی، مردم شماری، وزارت داخلہ و فرنٹیئر کور اور وزارت ہوابازی کی ادائیگی کے لیے ہیں۔

ایک سرکاری اعلامیے میں کہا گیا کہ ای سی سی نے مردم شماری کی کارروائیوں کے لیے وزارت منصوبہ بندی کو 6 ارب روپے کی سپلیمنٹری گرانٹ کی منظوری دی۔

بیان میں کہا گیا ہے کہ وزارت منصوبہ بندی نے اصل میں مردم شماری کے لیے 34 ارب روپے کا مطالبہ کیا تھا، جس میں سے 22 ارب روپے مالی سال22-2021 اور 23-2022 کے دوران پہلے ہی جاری کیے جا چکے ہیں۔

وزارت خزانہ نے وزارت منصوبہ بندی سے 24 جون کو زیر التوا ادائیگیوں کے لیے 6 ارب روپے کی نئی ضمنی گرانٹ طلب کرنے کو کہا تھا جنہیں آئندہ مالی سال تک مؤخر نہیں کیا جا سکتا تھا۔

ای سی سی نے راشن بلوں کے زیر التوا واجبات کو پورا کرنے کے لیے فرنٹیئر کور (خیبرپختونخوا) کے لیے ایک ارب 40 کروڑ روپے اور فرنٹیئر کور خیبرپختونخوا (شمالی) کے لیے ایک ارب روپے اور فرنٹیئر کور خیبرپختونخوا (جنوبی) کو 40 کروڑ روپے دینے کی منظوری بھی دی۔

کارٹون

کارٹون : 23 دسمبر 2024
کارٹون : 22 دسمبر 2024