• KHI: Zuhr 12:31pm Asr 4:12pm
  • LHR: Zuhr 12:01pm Asr 3:27pm
  • ISB: Zuhr 12:07pm Asr 3:26pm
  • KHI: Zuhr 12:31pm Asr 4:12pm
  • LHR: Zuhr 12:01pm Asr 3:27pm
  • ISB: Zuhr 12:07pm Asr 3:26pm

سانحہ 9 مئی تحقیقات: لیفٹیننٹ جنرل سمیت 3 افسران برطرف، 15 کے خلاف تادیبی کارروائی

شائع June 26, 2023 اپ ڈیٹ June 27, 2023
ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ 9 مئی کے ملزمان کو کیفرکردار تک پہنچاجائے گا—فوٹو: ڈان نیوز
ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ 9 مئی کے ملزمان کو کیفرکردار تک پہنچاجائے گا—فوٹو: ڈان نیوز

پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کے ڈائریکٹر جنرل (ڈی جی) میجر جنرل احمد شریف نے کہا ہے کہ 9 مئی کو جی ایچ کیو، جناح ہاؤس کی سیکیورٹی اور تقدس برقرار رکھنے میں ناکامی پر 3 افسران بشمول ایک لیفٹیننٹ جنرل کو نوکری سے برطرف کردیا گیا ہے اور دیگر کے خلاف کارروائی کی جاچکی ہے۔

جی ایچ کیو میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل احمد شریف نے کہا کہ فوج نے اپنی روایات کے مطابق خود احتسابی عمل کا مرحلہ مکمل کرلیا ہے، 9 مئی کو متعدد گیریژن میں جو پرتشدد واقعات ہوئے اس پر دو ادارہ جاتی جامع انکوائریز کی گئیں جس کی صدارت میجر جنرل رینکس کے عہدیداروں نے کی۔

انہوں نے کہا کہ ایک مفصل احتسابی عمل کے بعد یہ فیصلہ کیا گیا کہ جو متعلقہ ذمہ داران گیریژن، فوجی تنصیبات، جی ایچ کیو اور جناح ہاؤس کی سیکیورٹی اور تقدس برقرار رکھنے میں ناکام ہوئے ان ذمہ داران کے خلاف تادیبی کارروائی عمل میں لائی جائے گی۔

ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ 3 افسران بشمول ایک لیفٹیننٹ جنرل کو نوکری سے برطرف کر دیا گیا ہے جبکہ 15 افسران بشمول 3 میجر جنرلز اور 7 بریگیڈیئرز کے عہدے کے افسران کے خلاف سخت تادیبی کارروائی مکمل کی جا چکی ہے۔

انہوں نے کہا کہ آپ کو اس سے اندازہ ہوگا کہ فوج میں خود احتسابی کا عمل بغیر کسی تفریق کے مکمل کیا جاتا ہے اور جتنا بڑا عہدہ ہوتا ہے اتنی ہی بڑی ذمہ داری نبھانی پڑتی ہے۔

میجر جنرل احمد شریف نے کہا کہ فوج کے خود احتسابی عمل میں کسی عہدے یا معاشرتی حیثیت میں کوئی تفریق نہیں رکھی جاتی، اس وقت ایک ریٹائرڈ فوراسٹار افسر کی نواسی، ایک ریٹائرڈ فور اسٹار افسر کا داماد، ریٹائرڈ تھری اسٹار جنرل کی بیگم اور ریٹائر فور اسٹار جنرل کی بیگم اور داماد ناقابل تردید شواہد کی بنیاد پر اس احتسابی عمل سے گزر رہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ اب تک آرمی ایکٹ کے تحت چلائے جانے والے مقدمات کے سلسلے میں پہلے سے قائم شدہ فوجی عدالتیں کام کر رہی ہیں جس میں اب تک 102 شرپسندوں کا ٹرائل کیا جا رہا ہے۔

’افواجِ پاکستان کی عزت و وقار پر گھناؤنے منصوبے کے تحت حملہ کیا گیا‘

ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ افواجِ پاکستان کی عزت اور وقار پر ایک گھناؤنے منصوبے کے تحت حملہ کیا گیا، اس کے باوجود سیکیورٹی فورسز نے دہشت گردوں اور ان کے سہولت کاروں کے خلاف رواں سال کے دوران 13 ہزار 619 چھوٹے بڑے انٹیلی جنس آپریشنز کیے اور اس دوران ایک ہزار 172 دہشت گردوں کو واصل جہنم یا گرفتار کیا گیا، دہشت گردی کے ناسور سے نمٹنے کے لیے روزانہ کی بنیاد پر 77 سے زائد آپریشنز افواج پاکستان، پولیس، انٹیلی جنس ایجنسیز اور دیگر قانون نافذ کرنے والے ادارے انجام دے رہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ رواں سال آپریشنز کے دوران 95 افسران اور جوانوں نے جامِ شہادت نوش کیا، پوری قوم ان بہادر سپوتوں اور ان کے لواحقین کو زبردست خراج تحسین پیش کرتی ہے جنہوں نے اپنی قیمتی جانیں ملک کے امن و سلامتی پر قربان کر دیں۔

ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل احمد شریف نے کہا کہ اب تک کی تحقیقات میں بہت شواہد مل چل چکے ہیں، افواج پاکستان آئے روز اپنے شہدا کو کندھا دے رہی ہے اور روزانہ کی بنیاد پر دہشت گردوں کے خلاف جنگ لڑی جا رہی ہے۔

انہوں نے کہا کہ 9 مئی کا واقعہ انتہائی قابل مذمت اور پاکستان کی تاریخ کا سیاہ باب ہے، 9 مئی کے واقعات نے ثابت کردیا کہ جو کام دشمن 76 برس میں نہ کر سکا وہ مٹھی بھر شرپسندوں اور ان کے سہولت کاروں نے کر دکھایا، جس کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے۔

’تحقیقات میں بہت سے شواہد مل چکے ہیں اور مسلسل مل رہے ہیں‘

ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ 9 مئی کا سانحہ بلاشبہ پاکستان کے خلاف بہت بڑی سازش تھی، اب تک کی تحقیقات سے ثابت ہوا ہے کہ سانحہ 9 مئی کی منصوبہ بندی گزشتہ کئی ماہ سے چل رہی تھی، اس منصوبہ بندی کے تحت پہلے اضطرابی ماحول بنایا گیا، پھر لوگوں کے جذبات کو اشتعال دلایا گیا اور فوج کے خلاف اکسایا گیا۔

ان کا کہنا تھا کہ اس سلسلے میں جھوٹ اور مبالغہ آرائی پر مبنی بیانیہ ملک کے اندر اور باہر بیٹھ کر سوشل میڈیا پر پھیلایا گیا اور شرانگیز بیانیے سے پاکستان کے لوگوں کی ذہن سازی کی گئی۔

انہوں نے کہا کہ اب تک کی تحقیقات میں بہت سے شواہد مل چکے ہیں اور مسلسل مل رہے ہیں، افواج پاکستان، شہدا کے ورثا میں 9 مئی کے افسوس ناک سانحے پر شدید غم و غصہ پایا جاتا ہے۔

میجر جنرل احمد شریف نے کہا کہ افواج پاکستان آئے روز اپنے عظیم شہدا کے جنازوں کو کندھا دے رہی ہے، آپ کو علم ہے کہ دہشت گردی کے خلاف آپریشنز پوری یکسوئی اور قوت کے ساتھ جاری ہیں اور روزانہ کی بنیاد پر دہشت گردوں کی سرکوبی کی جارہی ہے لیکن جہاں ایک طرف پاک فوج یہ قربانیاں دے رہی ہے تو دوسری طرف بدقسمتی سے اپنے سیاسی مقاصد کے لیے ایک جھوٹے بیانیے پر افواجِ پاکستان کے خلاف گھناؤنا پروپیگنڈا کیا جارہا ہے، یہاں تک شہدا کے اہل خانہ کی بھی دل آزاری کی گئی۔

انہوں نے کہا کہ شہدا کے خاندان آج پوری قوم اور ہم سب سے کڑے سوال کر رہے ہیں اور وہ یہ ہیں کہ کیا ان کے پیاروں نے اس قوم کے لیے اس لیے قربانیاں دی تھیں کہ ان کی نشانیوں کو اس طرح بے حرمت کیا جائے، کیا اپنے مذموم سیاسی مقاصد حاصل کرنے کے لیے کچھ شرپسند عناصر شہدا اور غازیوں کی قربانیوں کو سیاسی ایجنڈے کی بھینٹ چڑھا دیں گے اور وہ لوگ جنہوں نے اس گھناؤنے عمل کی منصوبہ بندی کی وہ لوگ قانون کے کٹہرے میں کب لائے جائیں گے۔

ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ شہدا کے یہ ورثا ہم سب بالخصوص آرمی چیف سے بار بار یہ سوال کر رہے ہیں کہ کیا وہ روزانہ شہید ہونے والے افسران اور جوانوں کی حرمت کا ان شرپسندوں سے مستقبل میں تحفظ کر سکیں گے، شہدا کے ورثا اور آرمی کے تمام رینکس ہم سب سے یہ سوال اٹھا رہے ہیں کہ اگر ہماری قربانیوں اور ہمارے شہدا کے تقدس کی اسی طرح بے حرمتی ہونی ہے تو ہمیں اس ملک کی خاطر جان قربان کرنے کی کیا ضرورت ہے۔

میجر جنرل احمد شریف نے کہا کہ یہاں یہ بات کرنا انتہائی اہمیت کی حامل ہے کہ کسی بھی ملک و قوم کے لیے اس کے استحکام کی بنیاد عوام، حکومت اور فوج کے درمیان اعتماد، احترام کا رشتہ ہوتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ملک دشمن قوتوں نے مختلف طریقوں سے کئی دہائیوں سے یہ کوشش کی کہ عوام اور فوج کے درمیان خلیج ڈال کر اس رشتے میں دراڑ ڈالی جائے لیکن دشمن کو ہمیشہ ناکامی ہوئی۔

میجر جنرل احمد شریف نے کہا کہ ان بیانیوں میں دہشت گردی کے خلاف جنگ کو بیرونی ایجنڈے سے تشکیل دینا، ڈی ایچ اے، فوجی فاؤنڈیشن، دفاعی بجٹ، انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں جیسے جھوٹے بیانیے شامل ہیں لیکن ان گھناؤنے بیانیوں کے باوجود عوام اور فوج کے درمیان جو اعتماد اور احترام کا رشتہ ہے دشمن اس میں دراڑ نہ ڈال سکا جس کی وجوہات ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ان میں پہلی وجہ یہ ہے کہ افواجِ پاکستان نے ملک کے دفاع، عوام کی حفاظت اور فلاح و بہبود کے لیے ان گنت قربانیاں دیں اور دے رہی ہیں اور عوام کایہ اعتماد ہے کہ حالات جیسے بھی ہوں افواجِ پاکستان اپنی مکمل پیشہ ورانہ صلاحیتوں کے ساتھ کسی بھی قربانی سے گریز نہیں کرے گی۔

’نوجوانوں سے انقلاب کا جھوٹا نعرہ لگوا کر بغاوت پر اکسایا گیا‘

ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ افواجِ پاکستان تمام اکائیوں، مکاتب فکر اور طبقات کی نمائندگی کرتی ہے، نہ کہ کسی مخصوص اشرافیہ کی عکاسی کرتی ہے، ان عوامل کی وجہ سے عوام کو کسی صورت بھی افواج سے جدا نہیں کیا جا سکتا اور اس کی گواہی شہدا افواجِ پاکستان کی قبریں بھی دیتی ہیں جو ملک بھر بشمول گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر میں موجود ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ان ناقابل تردید زمینی حقائق کے باوجود گزشتہ ایک سال میں مذموم سیاسی مقاصد کے حصول اور اقتدار کی ہوس نے ایک جھوٹا اور گمراہ کن پروپیگنڈا چلایا گیا اور چلایا جا رہا ہے جس کا نکتہ عروج بدقسمتی سے 9 مئی کو دیکھا گیا جب پاکستان کے معصوم عوام بالخصوص نوجوانوں سے انقلاب کا جھوٹا نعرہ لگوا کر بغاوت پر اکسایا گیا۔

میجر جنرل احمد شریف نے کہا کہ پاکستان آرمی کی فیصلہ سازی میں مکمل ہم آہنگی اور وضاحت ہے، اس ضمن میں 9 مئی کے واقعات کے بعد 15 مئی کو جاری کی گئی اسپیشل کور کمانڈرز کانفرنس کی پریس ریلیز، 25 مئی کو یومِ تکریم شہدائے پاکستان کا پیغام اور 7 جون کو فارمیشن کمانڈرز کانفرنس کی پریس ریلیز اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ ملٹری قیادت اور افواجِ پاکستان 9 مئی کے واقعات سے جڑے ہوئے پسِ پردہ عناصر، ان کے سہولت کاروں اور ایجنڈے سے بخوبی آگاہ ہیں۔

انہوں نے کہا کہ اس سلسلے میں آرمی جن امور پر بالکل متفق اور واضح ہے وہ یہ ہیں کہ سانحہ 9 مئی کو پاکستان کی تاریخ میں نہ بھلایا جائے گا اور نہ ہی ملوث شرپسند عناصر، منصوبہ سازوں اور سہولت کاروں کو معاف کیا جا سکتا ہے، اس سانحے سے جڑے تمام منصوبہ سازوں اور سہولت کاروں کے خلاف آئینِ پاکستان اور قانون کے مطابق سزائیں دی جائیں گی، چاہے ان کا تعلق کسی بھی ادارے، سیاسی جماعت یا معاشرتی حیثیت سے کیوں نہ ہو۔

ڈی جی آئی ایس پی نے کہا کہ اس عمل کو منطقی انجام تک پہنچانے میں رکاوٹیں ڈالنے والوں کے ساتھ پاکستانی عوام کی بھرپور حمایت کے ساتھ سختی سے نمٹا جائے گا، جس عوامی حمایت کا عکس آپ نے 9 مئی کے بعد عوامی ردِعمل میں دیکھا۔

’ملک بھر میں 17 فوجی عدالتیں فعال ہیں‘

صحافیوں کی طرف سے پوچھے گئے سوالات کے جواب دیتے ہوئے ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ اس وقت ملک بھر میں 17 اسٹینڈنگ کورٹس کام کر رہی ہیں۔

ڈی جی آئی ایس پی آر سے سوال کیا گیا کہ 9 مئی کے واقعات کے بعد فوجی عدالتوں کے قیام اور ملوث افراد کے ٹرائل اور سزاؤں کے حوالے سے ابہام ہے تو انہوں نے کہا کہ یہ کیس فوجی عدالت اور سپریم کورٹ میں زیرسماعت ہے لیکن حقائق کا سمجھنا ضروری ہے۔

انہوں نے کہا کہ اس وقت ملک بھر میں 17 اسٹینڈنگ کورٹس کام کر رہی ہیں، یہ فوجی عدالتیں 9 مئی کے بعد معرض وجود میں نہیں آئیں بلکہ ایکٹ کے تحت پہلے سے فعال اور موجود تھیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ان عدالتوں میں 102 شرپسندوں کے مقدمات سول عدالتوں سے ثبوت دیکھنے کے بعد قانون کے مطابق فوجی عدالتوں میں منتقل کیے گئے ہیں، ان تمام ملزمان کو مکمل قانونی حقوق حاصل ہیں، جس میں سول وکیلوں تک رسائی کا حق بھی شامل ہے، اس کے علاوہ ہائی کورٹس اور سپریم کورٹ میں اپیل کا حق انہیں حاصل ہے۔

ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ آرمی ایکٹ آئین پاکستان اور قانون کا کئی دہائیوں سے حصہ ہے اور اس کے تحت سیکڑوں مقدمات نمٹائے جاچکے ہیں، بین الاقوامی عدالت انصاف نے اس کے عمل کی پوری طرح جانچنے کے بعد توثیق کی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ان تمام حقائق کی موجودگی میں کوئی بھی جھوٹا بیانیہ بنائے تو وہ بناسکتا ہے لیکن حقائق جھٹلائے نہیں جاسکتے۔

سزاؤں سے متعلق انہوں نے کہا کہ سزا اور جزا آئین پاکستان کا حصہ ہے، سزا جرم کے مطابق ہے، فوج بارہا اعادہ کرچکی ہے کہ ہمارے لیے آئین پاکستان سب سے مقدم ہے اور عوام کی خواہشات کا مظہر ہے۔

’ایک سیاسی گروہ کی قیادت کے پاس پروپیگنڈے کا ہتھیار ہے‘

ایک سوال پر انہوں نے کہا کہ 9مئی کا سانحہ فوج یا ایجنسیوں نے کرانے کی بات کرنا افسوس ناک اور شرم ناک ہے، یہ بات کہنے والے کی زہریلی اور سازشی ذہن کی عکاسی ہے۔

انہوں نے کہا کہ سی سی ٹی وی فوٹیجز، آڈیو ریکارڈنگز، تصاویر اور ملوث افراد کے اپنے بیانات سے یہ واضح ہوتا ہےکہ ایک منصوبہ بندی کے تحت 9 مئی کو چن چن کر فوجی تنصیبات کو نشانہ بنایا گیا، 9 مئی سے بہت پہلے ہی لوگوں کی فوج کے خلاف ذہن سازی کی گئی ہے، فوجی قیادت کے خلاف ذہن سازی کی گئی، کیا یہ ذہن سازی فوجی قیادت نے اپنے خلاف خود کروائی۔

صحافیوں سے سوال کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ گرفتاری کے چند گھنٹوں میں ملک بھر میں 200 سے زائد مقامات پر صرف فوجی تنصیبات پر حملہ کروایا گیا، کیا راولپنڈی، لاہور، کراچی، چکدرہ، تیمرگرہ، ملتان، لاہور، فیصل آباد، پشاور، مردان، کوئٹہ، سرگودھا، میانوالی اور بہت سے مقامات پر فوج نے اپنے ایجنٹس پہلے سے پھیلائے تھے، کیا فوجیوں نے اپنے ہاتھوں سے اپنے شہدا کی قربانیوں کو جلایا، کیا ہم نے اپنے فوجیوں کے ہاتھوں سے اپنے دفاع پاکستان کی علامات گروائیں اور جلایا۔

ان کا کہنا تھا کہ جب جلاؤ گھیراؤ ہو رہا تھا تو ملک میں اور ملک سے باہر بیٹھ کر نامی اور بے نامی اکاؤنٹس سے کون پرچار کر رہا تھا کہ مزید جلاؤ گھیراؤ اور قبضہ کرو ،کیا یہ فوج کروا رہی تھی، بے شمار ثبوت ہیں، جس سے ثابت ہوتا ہے کہ جھوٹ اور پروپیگنڈے کے علاوہ ایک خاص سیاسی گروہ اور اس کی قیادت کے پاس کوئی اور ہتھیار نہیں ہے، یہ بدقسمتی ہے۔

’9مئی واقعات کے ملزمان انسانی حقوق کے پیچھے نہیں چھپ سکتے‘

پی ڈی ایم کی حکومت کے ساتھ گٹھ جوڑ سے انسانی حقوق کی خلاف ورزی کے حوالے سے امریکی سینیٹرز اور دیگر کے الزامات سے متعلق سوال پر انہوں نے کہا کہ یہ بیانیہ ریاست پاکستان کے خلاف پہلے بھی بنایا جاتا رہا ہے اور اس کی کلیدی آواز باہر سے ہوتی ہے لیکن اس میں بدقستمی سے ملک میں بیٹھے عناصر اس کو تقویت دیتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ آج تک دیکھا گیا ہے کہ یہ عناصر وہ دہشت گرد تنظیمیں ہوتی ہیں جب ان کے خلاف دہشت گردی کے دوران کارروائی کی جاتی ہے تو انسانی حقوق، جبر اور اقدار کے پیچھے چھپ جاتے ہیں، اس وقت مختلف طریقوں سے چلایا جا رہا ہے، سوشل میڈیا پر فیک ویڈیوز چلائی جاتی ہیں، پرانی تصاویر اور ویڈیو ڈالی جاتی ہیں، چیزوں کو جوڑا جاتا ہے اور غلط بیانات بنائے جاتے ہیں تاکہ تاثر پھیلا جا ئے کہ ریاست پاکستان جبر کر رہی ہے جبکہ کچھ دنوں میں فیک آڈیوز واضح بھی ہوجاتی ہیں۔

انہوں نے کہا کہ دوسرا طریقہ یہ ہے کہ پوشیدہ روابط کی بنیاد پر یا پیسے کا استعمال کرتے ہوئے مخصوص لوگوں کو باہر جو بیٹھے ہیں، ایجنسیز یا این جی اوز کے ذریعے بیانات دلائے جاتے ہیں اور ایک ماحول بنایا جاتا ہے کہ پاکستان میں انسانی حقوق کی بہت زیادہ خلاف ورزی ہو رہی ہے۔

میجر جنرل احمد شریف نے کہا کہ تیسرا چہرہ اس سے بھی مکروہ اور زیادہ خطرناک ہے، وہ یہ ہے کہ دونوں چیزوں کو اکٹھا کرکے بیرون ملک دارالحکومتوں میں اداروں کے پاس جا کر ایک کیس بنایا جاتا ہے کہ پاکستان کی معاشی اور تجارتی معاونت بند کردیں۔

انہوں نے کہا کہ وہ اس لیے کرتے ہیں تاکہ پاکستان میں افراتفری پھیلے، معاشی حالات خراب ہوں اور بے چینی پھیلے اور اس کے اندر سے ان کی سیاست کے لیے راستہ نکلے اور مذموم سیاسی مقاصد اور اقتدار کی ہوس کے لیے کوئی راستہ ملے لیکن حکومت پاکستان اس سے بخوبی آگاہ ہے۔

ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ پاکستان میں مقدمہ لڑنے کے بجائے جو باہر جا کر احتجاج کر رہے ہیں ان ممالک کے ماضی قریب کی تاریخ پر نگاہ ڈالیں کہ ان جیسے بلوائیوں اور شرپسندوں سے وہ کس طرح آہنی ہاتھوں سے نمٹے ہیں یہاں تو شہدا کے تقدس کو پامال کیا گیا، فوجی تنصیبات پر منصوبہ بندی کے تحت حملہ کروایا گیا، یہ انسانی حقوق کی خلاف ورزی کا واویلا مچا کر 9 مئی کے سہولت کار چھپ نہیں سکتے۔

ان کا کہنا تھا کہ میرے خیال میں پاکستان میں وقت آگیا ہے کہ جھوٹ کی کرنسی ختم کردی جائے اور سچ چاہے کتنا بھی کڑوا ہو اس کو ہضم کرنے کی اپنے اندر صلاحیت ہو۔

’فوج کو اشتعال دلا کر ردعمل اپنے مقاصد کیلئے استعمال کرنے کی سازش کی گئی تھی‘

ڈان نیوز کے نمائندے افتخار شیرازی نے سوال کیا کہ 9 مئی کو ہم نے دیکھا گویا کہ لوگوں کو آزادی تھی کہ وہ جی ایچ کیو پر حملہ کریں، کور کمانڈر میں گھس جائیں تو سیکیورٹی کی لیئر کیوں غائب تھیں، اس پر نہ تو کوئی ایکشن لیا گیا، ہمیں بتایا جا رہا ہے کہ بڑی منصوبہ بندی کے ساتھ یہ سب کچھ کیا گیا ہے لیکن 9 مئی سے لے کر آج تک ہمیں نہ تو مرکزی منصوبہ ساز کے بارے میں بتایا گیا اور نہ ہی لگتا ہے اس کو گرفتار کیا گیا ہے، اگرچہ ثانوی کرداروں کو آپ سزا بھی دے چکے ہیں اور ایک ایسا شخص جو مسلح افواج کے نظام میں اس طرح مداخلت کر گیا کہ اس نے لیفٹیننٹ جنرل، میجر جنرل اور بریگیڈیئرز رینک کے افسران پر اثر ڈالا ہے، آج تک ہم اس کا نام نہیں جانتے ہیں۔

افتخار شیرازی نے تیسرا سوال کیا کہ کہا جا رہا ہے کہ مخصوص جماعت سے لوگ اس جہاز سے نیچے اتر رہے ہیں، ایک پریس کانفرنس کرتے ہیں اس کے بعد گھر چلے جاتے ہیں اور کہا جارہا ہے کہ ایسے لوگوں کو کوئی سزا نہیں ہے اگر وہ 9 مئی کے واقعات میں ملوث بھی ہوں تو ان کو آزاد چھوڑا جا رہا ہے، جس کی وجہ سے یہ تاثر بن رہا ہے کہ شاید یہ بائی ڈیزائن سب کچھ ہوا ہے، بنیادی طور پر جو کچھ ہوا ہے وہ حقیقی نہیں تھا۔

ڈی جی آئی ایس پی آر نے جواب میں کہا کہ 9 مئی کا واقعہ اچانک نہیں ہوا، اس کا مقصد یہ تھا کہ فوجی تنصیبات پر لوگوں کو بھیج کر حملہ کیا جائے اور فوج کو اشتعال دلا کر فوری ردعمل دلایا جائے کیونکہ اس سے پہلے کئی مہینوں سے فوج اور فوجی قیادت کے خلاف لوگوں کی ذہن سازی کی جا رہی تھی اور بھڑکایا جا رہا تھا اور نفرت ڈالی جا رہی تھی، اس سے جو ردعمل آنا تھا، اس سے اپنے مذموم سیاسی مقاصد مزید آگے لے کر جانا تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ یہ کرنے کے لیے انہوں نے متعدد جگہوں پر خواتین کو بھی منصوبہ بندی کے تحت ڈھال کے طور پر آگے رکھا اور یہ کوئی بھی توقع نہیں کرسکتا تھا کہ ایک سیاسی پارٹی اپنے ہی ملک میں اپنی ہی فوج پر حملہ آور ہوجائے لیکن جب یہ واقعہ ہوا تو فوج نے اس گھناؤنی سازش کو ناکام بنایا کیونکہ جس طرح کا رد عمل وہ چاہتے تھے وہ دیا جاتا تو پھر ان کی سازش کامیاب ہوجاتی لیکن اس کو ناکام بنایا گیا۔

انہوں نے کہا کہ ضروری تھا کہ جو گریژنز، فوجی تنصیبات، جناح ہاؤس اور جی ایچ کیو وغیرہ کا تقدس اور سیکیورٹی میں جہاں کمی ہوئی یا برقرار نہیں رکھ سکے تو اس پر کہیں غیرارادی کوتاہی یا غفلت ہوئی ہے تو اس کا تعین کیا جائے، غفلت اور نقصانات جانچنے کے لیے فوج کے اندر خود احتسابی کا عمل نافذ ہے، جس کے لیے فوری طور پر دو ادارہ جاتی انکوائریز میجر جنرل عہدے کے افسران کی سربراہی میں ہوئی، جنہوں نے تفصیل سے دیکھا اور شفافیت سے مسئلے کو مکمل کیا اور اپنی سفارشات دیں۔

سزاؤں سے متعلق انہوں نے کہا کہ جتنا بڑا عہدہ اتنی بڑی ذمہ داری ہے اور کسی سیاسی جماعت کی طرف جھکاؤ محض پروپیگنڈا ہے کیونکہ فوج کے ہر جوان کی اولین اور آخری ترجیح ریاست پاکستان اور افواج پاکستان ہیں، اس میں کسی کو کوئی ابہام نہیں ہونا چاہیے۔

انہوں نے کہا کہ 9 مئی کے واقعے کے بعد یہ دیکھ کر ہمیں اطمینان ہونا چاہیے کہ لوگ اس جھوٹے بیانیے کو پہچان گئے اور جانچ رہے ہیں کہ کیا سچ ہے اور کیا جھوٹ ہے۔

ملزمان کے نام سے متعلق ایک سوال پر ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ اگر عہدے اور ذمہ داریوں اور نام بتانے ہوتے تو پہلے ہی بتادیتا۔

’منصوبہ ساز اور سہولت کاروں کو کیفرکردار تک پہنچانا ضروری ہے‘

میجر جنرل احمد شریف نے کہا کہ ان واقعات کے ماسٹر مائنڈز روز روشن کی طرح سب کے سامنے عیاں ہیں، جن لوگوں نے یہ واقعات کیے ہیں ان کو سزا ملنی چاہیے اور سزا ملے گی لیکن اس سے زیادہ اہم ہے کہ قوم کو 9 مئی کے واقعے سے آگے بڑھنا ہے تو یہ جو منصوبہ ساز اور سہولت کار ہیں ان کو بے نقاب اور کیفرکردار تک پہنچانا ضروری ہے۔

انہوں نے کہا کہ سانحہ 9 مئی اس وقت تک انصاف کا منتظر رہے گا جب تک اس کے منصوبہ سازوں اور سہولت کاروں کو کیفر کردار تک نہیں پہنچایا جاتا، اگر ایسا نہیں ہوتا تو کل کوئی اور سیاسی گروہ اپنے مذموم مقاصد کے لیے اس واقعے کو دہرائے گا اور اگر ایسا نہیں ہوا تو ہر فرد کی جان مال اور آبرو کے تحفظ پر ایک سوالیہ نشان رہے گا۔

ان کا کہنا تھا کہ ہمیں یہ بھی معلوم ہونا چاہیے کہ اس کے علاوہ کوئی اور حل نہیں کہ ہم ان منصوبہ سازوں کو پہچانیں اور ان کو کیفر کردار تک پہنچائیں۔

’پاکستان کو سب سے بڑا خطرہ اندرونی انتشار سے ہے‘

سوشل میڈیا میں پروپیگنڈے کے حوالے سے سوال پر انہوں نے کہا کہ اس مسئلے کا حل ضروری ہے، حکومت پاکستان سنجیدگی سے اس پر غور کر رہی ہے، اخلاقیات، سزا و جزا کی بھی ضرورت ہے اور اس میں صحافیوں کا اہم کردار ہے اور ان کو چاہیے کہ وہ ذمہ دارانہ صحافت کریں بجائے اس کے سنسنی خیز صحافت کی جائے، معاشرے میں نفرت اور ہیجان انگیزی کم کی جائے۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان کو سب سے بڑا خطرہ اندرونی انتشار سے ہے، اگر ہم نے اس انتشار کا راستہ نہ روکا تو یہ بیرونی یلغار کا راستہ ہموار کرے گا۔

ڈی جی آئی ایس پی آر کا کہنا تھا کہ پاک فوج چاہتی ہے کہ تمام سیاسی اسٹیک ہولڈرز آپس میں بیٹھ کر قومی اتفاق رائے پیدا کریں تاکہ عوام میں اعتماد پیدا ہو، ملک میں معاشی استحکام ہو اور جمہوری اقدار مزید مضبوط ہوں، ہمارے لیے تمام حقیقی سیاسی جماعتیں بلاتفریق قابل احترام اور مقدم ہیں۔

کارٹون

کارٹون : 22 دسمبر 2024
کارٹون : 21 دسمبر 2024