امریکا اور بھارت کا مشترکہ بیان، پاکستان پر پھر ایف اے ٹی ایف کی تلوار لٹکنے لگی
امریکا اور بھارت کے مشترکہ بیان میں ناصرف پاکستان پر زور دیا گیا ہے کہ وہ تمام دہشت گرد گروپوں کے خلاف ’فوری کارروائی کرے‘ بلکہ فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کو منی لانڈرنگ اور دہشت گردی کی مالی معاونت کو مزید سخت کرنے کی تجویز بھی دی گئی ہے۔
ڈان اخبار میں شائع رپورٹ کے مطابق جمعرات کو صدر جو بائیڈن اور بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کے درمیان وائٹ ہاؤس میں ہونے والی ملاقات کے بعد جاری بیان میں کہا گیا کہ دونوں رہنماؤں نے فنانشل ایکشن ٹاسک فورس پر زور دیا کہ وہ دہشت گردی کی مالی معاونت اور منی لانڈرنگ سے نمٹنے کے لیے اپنے معیارات کے عالمی نفاذ کو بہتر بنانے کے لیے مزید کام کرنے کی نشاندہی کرے۔
اٹلانٹک کونسل، واشنگٹن کے جنوبی ایشیائی اسکالر عزیر یونس نے کہا کہ یہ پاکستان کے لیے تشویش کا باعث ہونا چاہیے کیونکہ اس بات کے شواہد موجود ہیں کہ جب فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کی طرف دباؤ ڈالا جاتا ہے تو پاکستان اس طرح کے مخصوص مطالبات کی تعمیل کرتا ہے۔
انہوں نے ساجد میر کیس کا حوالہ دیتے ہوئے مزید کہا کہ 2021 کے موسم خزاں میں جب پاکستان کو اسی طرح کے دباؤ کا سامنا کرنا پڑا تو ساجد میر کو مردہ حالت سے واپس لایا گیا۔
ساجد میر ایف بی آئی کی انتہائی مطلوب دہشت گردوں کی فہرست میں شامل تھے اور ممبئی حملوں میں امریکا اور بھارت دونوں کو مطلوب تھے، اگرچہ ابتدائی طور پر یہ دعویٰ کیا گیا تھا کہ وہ مر چکا ہے، لیکن اسے 2022 میں پاکستانی سیکیورٹی اداروں نے گرفتار کیا اور بعد میں سزا سنائی گئی تھی۔
بیان میں امریکی اور بھارتی حکومتوں کے درمیان انٹیلی جنس شیئرنگ اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے مابین تعاون سمیت انسداد دہشت گردی کے عہدوں اور ہوم لینڈ سیکیورٹی تعاون پر بھی زور دیا گیا۔
اس سے انہیں دونوں ممالک کی جانب سے دہشت گرد قرار دیے جانے کا مشترکہ آپشن بھی ملتا ہے جس سے پاکستان پر بھارتی حکومت کی جانب سے دہشت گرد قرار دیے جانے والوں کو پکڑنے کے لیے مزید دباؤ بڑھے گا۔
بیان میں پاکستان سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ اس بات کو یقینی بنانے کے لیے فوری کارروائی کرے کہ اس کے زیر کنٹرول کوئی بھی علاقہ دہشت گرد حملوں کے لیے استعمال نہ ہو اور 26/11 میں ممبئی میں کیے گئے حملوں کے ساتھ ساتھ پٹھان کوٹ حملوں کے مجرموں کو انصاف کے کٹہرے میں لانے کا مطالبہ کیا گیا۔
وائٹ ہاؤس میں ملاقات کے دوران جو بائیڈن اور نریندر مودی نے القاعدہ، داعش، لشکر طیبہ، جیش محمد اور حزب المجاہدین سمیت اقوام متحدہ کی فہرست میں شامل تمام دہشت گرد گروپوں کے خلاف ٹھوس اقدامات اور کارروائی کرنے کے مطالبے کا اعادہ کیا۔
پاکستانی نژاد امریکی اسکالر شجاع نواز نے کہا کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ امریکا اب بھارت کے ساتھ اتحاد کر رہا ہے تاکہ پاکستان پر ان گروہوں کے خلاف کارروائی کرنے کے لیے دباؤ ڈالا جائے جنہیں ماضی میں پناہ گاہیں یا سرپرستی حاصل رہی ہے۔
انہوں نے کہا کہ یہ اہم ہے کہ کشمیر یا منی پور میں بھارتی جبر یا پارلیمنٹ سے راہول گاندھی کے نکلنے کے بارے میں کچھ نہیں کہا گیا۔
تاہم عذیر یونس نے نشاندہی کی کہ امریکا کا پیغام کچھ عرصے سے بلند اور واضح ہے: لشکر طیبہ سے منسلک اور ممبئی اور پٹھان کوٹ میں دہشت گرد حملوں کے ذمہ دار ان دہشت گردوں کے خلاف کارروائی کریں جن کی پاکستانی سرزمین پر محفوظ پناہ گاہیں ہیں۔
جب ان سے پوچھا گیا کہ امریکا بھارتی مطالبے کی حمایت کیوں کر رہا ہے، تو انہوں نے کہا کہ امریکا ایک طویل عرصے سے اس مطالبے کی حمایت کرتا رہا ہے اور اس کی درست وجوہات بھی ہیں کیونکہ ان حملوں کی وجہ سے امریکی شہریوں کی موت بھی ہوئی۔
مشترکہ بیان میں اس بات پر زور دیا گیا کہ امریکا اور بھارت عالمی دہشت گردی کا مقابلہ کرنے کے لیے ایک ساتھ کھڑے ہیں اور دہشت گردی اور پرتشدد انتہا پسندی کی تمام شکلوں کی واضح طور پر مذمت کرتے ہیں۔