سمندر کی گہرائیوں میں اترنا خلائی سفر سے زیادہ مشکل کیوں ہے؟
دنیا بھر میں صرف کچھ لوگوں نے بحرِ اوقیانوس میں 3800 میٹر گہرائی میں موجود تاریخی بحری جہاز ٹائٹینک کے ملبے تک تفریحی سفر کیا ہے، کیونکہ چند لوگ ہی اس تک رسائی حاصل کرسکتے ہیں۔
سمندر کی گہرائی کا سفر کرنے کے لیے صرف مالی وسائل ہونا کافی نہیں بلکہ سیاحتی سفر سے ہم آہنگی اور ممکنہ خطرات کے بارے میں علم ہونا بھی بہت ضروری ہے۔
سی این این کی رپورٹ کے مطابق سیاحت کے شوقین افراد کو سیاحتی سفر پر لے جانے کے لیے 2009 میں سیاحت اور تحقیقی کمپنی اوشن گیٹ کی بنیاد رکھی گئی جو ٹائیٹنک جہاز کے ملبے تک تفریحی سفر کے لیے 8 دن کے سفر کی پیشکش کررہی تھی۔
کمپنی کی ویب سائٹ کے مطابق زندگی میں ایک بار اس انوکھے اور دلچسپ ایڈوینچر کی لاگت 250 ہزار ڈالر ہے۔
کارپوریٹ کمپنی تارا انکو کے مالک نک اننزیو کہتے ہیں کہ ’امیر لوگوں کو میں نے دیکھا ہے کہ جب تجربے کی بات آتی ہے تو پیسہ معنی نہیں رکھتا، یہ لوگ وہ تجربہ کرنا چاہتے ہیں جسے وہ کبھی نہیں بھولیں گے۔
نیشنل اوشینک اینڈ ایٹموسفیرک ایڈمنسٹریشن کے 2022 کے اعداد و شمار کے مطابق اگرچہ لوگ ہزاروں سال سے سمندر کی سطح کو تلاش کر رہے ہیں، لیکن انسان سمندری سطح کا صرف 20 فیصد کا نقشہ بنانے میں کامیاب ہوئے۔
محققین اکثر کہتے ہیں کہ خلا میں سفر کرنا سمندر کی تہہ میں جانے سے زیادہ آسان ہے، ووڈس ہول اوشیانوگرافک انسٹی ٹیوشن کے مطابق ایک جانب جہاں 12 خلابازوں نے چاند پر 300 گھنٹے گزارے ہیں، تو دوسری طرف صرف 3 لوگوں نے سمندر کی گہرائی کو تلاش کرنے کے لیے سمندر کی تہہ میں تین گھنٹے گزارے ہیں۔
خلائی ایجنسی میں 30 سال سے زیادہ عرصہ گزارنے والے ڈاکٹر جین فیلڈمین کہتے ہیں کہ ’ہمارے پاس زمین کے مقابلے میں چاند اور مریخ کے نقشے بہتر ہیں۔‘
انتہائی محدود پیمانے پر انسان سمندر کی گہرائی تک سفر کرتا ہے، اس کی بھی کئی وجوہات ہیں، ایک وجہ یہ ہے کہ سمندر کی گہرائی میں سفر کرنے کا مطلب آپ جتنی گہرائی میں جائیں گے آپ کے اوپر پانی کے دباؤ میں مسلسل اضافہ ہوتا جائے گا، خلا کے مقابلے سمندر میں جانے کے کئی چیلنجز ہیں، سمندر میں اندھیرا ہوتا ہے، وہاں تقریباً کچھ بھی نظر نہیں آتا، سورج کی روشنی پانی کے اندر بہت تیزی سے جذب ہو جاتی ہے اور سطح سے تقریباً ایک ہزار میٹر سے زیادہ گہرائی میں جانے سے قاصر رہتی ہے اس کے علاوہ سمندر کا درجہ حرارت انتہائی کم ہوتا ہے۔
سمندر کے سفر کی تاریخ
دنیا کی پہلی آبدوز ڈچ انجینئر کارنیلیس ڈریبل نے 1620 میں بنائی تھی، جو کم گہرے پانی میں پھنس گئی تھی۔
بعدازاں ٹائٹینک جہاز حادثے کے بعد جب سونار ٹیکنالوجی ایجاد ہوئی تو سائنسدانوں کو 300 سال لگے تب جاکر سمندر کی گہرائی کی واضح تصویر کا پتا چلا۔
صرف چار غوطہ خوروں نے سمندر کی سب سے زیادہ گہرائیوں کو دریافت کیا ہے۔
1960 میں سمندر کے نامور ایکسپلورر جیکس پیکارڈ اور امریکی بحریہ کے لیفٹیننٹ ڈان والش نے ٹریسٹ نامی آبدوز میں سمندر کی گرائی کا تجربہ کیا تھا، انتہائی دباؤ کی وجہ سے ان کی غوطہ خوری صرف 20 منٹ تک جاری رہی اورانہوں نے سمندری فرش سے اتنا ملبہ اٹھا لیا کہ وہ وہاں کی تصاویر لینے سے قاصر رہے۔
سمندر کی گہرائی کا اگلا ایڈونچرر 50 سال سے زیادہ کا عرصہ کے بعد ہوا، فلمساز جیمز کیمرون نے 2012 میں ایک آبدوز کے ذریعے ٹائٹینک کے سفر کا تجربہ کیا تھا، یہ آبدوز انہوں نے خود ڈیزائن کیا تھا۔ سمندر میں جانے کے تین گھنٹے بعد سمندری دباؤ نے جیمز کیمرون کے سامان کو نقصان پہنچایا، بیٹریاں اور سونار کا سامان خراب ہو گیا تھا۔
اس کے بعد 2019 میں ایڈونچرر وکٹر ویسکووو نے سمندری گہرائی کا نیا ریکارڈ قائم کیا تھا، انہوں نے آبدوز کے ذریعے سولو ڈائیو پر 10 ہزار 928 میٹر تک پہنچنےمیں کامیاب ہوئے۔
درجنوں دیگر پائلٹ نے سمندری گہرائی کو جاننے کے لیے اس کی گہرائی تک جانے کی کوشش کی لیکن سمندر کے بارے انسان کا علم اب بھی محدود ہے۔
سمندر کی تہہ میں کیا ہے؟
میساچوسٹس میں ووڈس ہول اوشیانوگرافک انسٹی ٹیوشن کے مطابق 1948 میں سائنسدان پہلی بار یہ ثابت کرنے میں کامیاب ہوئے کہ سمندر کی 19 ہزار 685 فٹ گہرائی میں بھی جاندار موجود ہیں۔
ٹائٹینک سطح سمندر سے تقریباً 12ہزار 500 فٹ نیچے ہے، سمندر کی گہرائی پر اگر روشنی ڈالی جائے تو سکوبا ڈائیو 2022 میں سمندر کی ایک ہزار 90 فٹ گہرائی تک پہنچنے میں کامیاب ہوا تھا۔
جبکہ دنیا کی سب سے اونچی عمارت برج خلیفہ سمندر میں صرف 2 ہزار 717 فٹ تک پہنچ سکتی ہے، جو ٹائٹینک کے ملبے تک پہنچنے سے تقریباً 9 ہزار 700 فٹ دور ہے۔
سمندر کی گہرائی کے بارے میں مزید معلومات کے لیے آپ نیچے دی گئی ویڈیو دیکھ سکتے ہیں۔