’سلیمان گہرے سمندر کے سفر سے خوفزدہ تھا‘، شہزادہ داؤد کی بہن کا انکشاف
بحرِ اوقیانوس میں 3800 میٹر گہرائی میں موجود تاریخی بحری جہاز ٹائٹینک کے ملبے تک تفریحی سفر کو جانے والے بدقسمت پاکستانی بزنس مین شہزادہ داؤد کے 19 سالہ بیٹے سلیمان ٹائٹینک کی باقیات دیکھنے کے سفر سے خوفزدہ تھے۔
این بی سی نیوز کی رپورٹ کے مطابق پاکستانی بزنس مین شہزادہ داؤد کی بڑی بہن عظمیٰ داؤد نے بتایا کہ ان کا بھتیجا سلیمان ٹائٹینک کی باقیات دیکھنے کے سفر کے لیے ذہنی طور پر تیار نہیں تھا، وہ سفر پر جانے سے خوفزدہ تھا۔
انہوں نے کہا کہ سلیمان صرف ’فادرز ڈے‘ پر والد کو خوش کرنے کی خاطر اس خطرناک سفر میں شریک ہوا تھا۔
عظمیٰ کہتی ہیں کہ ’ان دنوں میں بس یہی سوچ رہی تھی کہ سلیمان کو گہرے سمندر میں سانس لینے میں تکلیف ہو رہی ہوگی، سچ بتاؤں تو یہ انتہائی خوفناک ہے۔
48 سالہ شہزادہ داؤد اور ان کے بیٹے 19 سالہ سلیمان کی موت کی تصدیق کے اعلان کے بعد عظمیٰ نے انتہائی دکھ بھرے انداز میں کہا کہ ’میں یقین نہیں رکھتی، یہ بالکل غیر حقیقی صورتحال ہے‘۔
شہزادہ داؤد اور ان کے بیٹے کی موت کے تصدیق سے قبل آخری 4 دن عظمیٰ کے لیے اذیت ناک تھے، جب انہیں معلوم ہوا کہ ٹائٹن آبدوز لاپتا ہوگئی ہے تو وہ ہر وقت ٹیلی ویژن کے سامنے بیٹھی رہتی تھیں اور اپنے بھائی اور بھتیجے کے بارے میں اپ ڈیٹ کے لیے بے چین رہتی تھیں۔
عظمیٰ اور شہزادہ داؤد پاکستان میں سب سے نمایاں کارپوریٹ خاندانوں میں سے ایک ہیں، شہزادہ داؤد اینگرو کارپوریشن کے نائب چیئرمین تھے، یہ کمپنی کھاد، کھانے پینے کی اشیا اور توانائی کے شعبے میں کام کرتی ہے۔
’شہزادہ کو چھوٹی عمر سے ہی ٹائٹینک کا جنون تھا‘
حالیہ برسوں میں عظمیٰ کا شہزادہ داؤد سے رابطہ بہت کم ہوگیا تھا۔
وہ اپنی بیماری کی وجہ سے ایمسٹرڈیم میں رہتی تھیں جبکہ شہزادہ داؤد اپنی فیملی کے ساتھ برطانیہ میں مقیم تھے۔
عظمیٰ نے اپنے بھائی سے پیار کا اظہار کرتے ہوئے جذباتی انداز میں کہا کہ ’شہزادہ داؤد میرا چھوٹا بھائی تھا، جب وہ پیدا ہوا تو میں نے بھی اسے اپنی گود میں اٹھایا تھا‘۔
ایک بیان میں عظمیٰ اور شہزادہ داؤد کے والدین نے لوگوں سے اپیل کی کہ وفات پانے والوں اور ہمارے خاندان کو اس مشکل موقع پر اپنی دعاؤں میں یاد رکھیں۔
بیان میں کہا گیا کہ ہم ریسکیو آپریشن میں حصہ لینے والوں کے شکر گزار ہیں اور ہم نیک تمنائیں رکھنے والوں کے بھی شکر گزار ہیں جو اس مشکل وقت میں ہمارے ساتھ کھڑے ہوئے۔
عظمیٰ نے یاد کرتے ہوئے کہا کہ ’شہزادہ کو چھوٹی عمر سے ہی ٹائٹینک کا جنون تھا۔
انہوں نے بتایا کہ شہزادہ جب مجھ سے ملنے آئے تو انہوں نے ٹائٹینک کی 4 گھنٹے کی ڈاکیومنٹری دیکھنے کی خواہش کی تھی، شہزادہ کو عجائب گھر کی نمائشیں دیکھنے جانا بھی پسند تھا جس میں ملبے سے برآمد ہونے والے فن پارے موجود تھے۔
جب انہیں معلوم ہوا کہ ان کے بھائی نے اوشن گیٹ مشن کے لیے ٹکٹ خریدے ہیں تو وہ حیران نہیں ہوئیں، عظمیٰ کہتی ہیں کہ ’یہ ایک ایسی چیز تھی جو میں کبھی نہیں کرنا چاہتی، اگر آپ مجھے 10 لاکھ ڈالرز بھی دیں گے تب بھی میں ٹائٹن میں نہیں بیٹھوں گی‘۔
انہوں نے کہا کہ مجھے بہت افسوس ہوا کہ پوری دنیا کو اتنے صدمے سے گزرنا پڑا۔
ٹائٹن آبدوز کا سفر کب شروع ہوا؟
یاد رہے کہ 19 جون کو ٹائٹینک جہاز کی باقیات کو دیکھنے کے لیے جانے والی 21 فٹ کی چھوٹی آبدوز سے ہر قسم کا رابطہ منقطع ہوگیا تھا، جو شمالی بحر اوقیانوس کی سطح سے دو میل (تقریباً چار کلومیٹر)گہرائی میں موجود تھی۔
ٹائٹن نامی آبدوز امریکا میں قائم کمپنی اوشن گیٹ ایکسپیڈیشن چلاتی ہے، جس کی خصوصیات کے مطابق اسے 96 گھنٹے تک زیر آب رہنے کے لیے بنایا گیا تھا۔
آبدوز میں اینگرو کارپوریشن کے وائس چیئرمین اور پاکستانی بزنس مین شہزادہ داؤد، ان کا 19 سالہ بیٹا سلیمان، برطانوی ارب پتی ہمیش ہارڈنگ، فرانسیسی ایکسپلورر پال ہنری نارجیولٹ، اوشین گیٹ کے سی ای او اسٹاکٹن رش اس آبدوز پر سوار تھے۔
آبدوز کی تلاشی کے لیے امریکی کوسٹ گارڈ نے ریسکیو آپریشن شروع کیا جو 5 روز تک جاری رہا۔
آبدوز میں موجود افراد کے پاس آکسیجن کی اضافی سپلائی 22 جون کو پاکستانی وقت کے مطابق چار بجے ختم ہوگئی تھی۔
ٹائٹن آبدوز کا ملبہ ملنے کی تصدیق
22 جون کی شام کو امریکی کوسٹ گارڈ کی جانب سے تصدیق کی گئی تھی کہ لاپتا آبدوز ٹائٹن کی تلاش کے دوران سمندر کی تہہ میں ٹائٹینک کے قریب سے کچھ ملبہ ملا ہے۔
ٹائٹن آبدوز میں سوار مسافروں کے ایک دوست اور ڈائیونگ ماہر ڈیوڈ میرنز نے بی بی سی کو بتایا ہے کہ اس ملبے میں ٹائٹن آبدوز کا لینڈنگ فریم بھی شامل ہے۔
جس کے بعد آبدوز کی مالک کمپنی اوشن گیٹ نے اس میں سوار 2 پاکستانیوں سمیت پانچوں افراد کی موت کی تصدیق کردی تھی۔