• KHI: Asr 4:12pm Maghrib 5:48pm
  • LHR: Asr 3:26pm Maghrib 5:04pm
  • ISB: Asr 3:26pm Maghrib 5:04pm
  • KHI: Asr 4:12pm Maghrib 5:48pm
  • LHR: Asr 3:26pm Maghrib 5:04pm
  • ISB: Asr 3:26pm Maghrib 5:04pm

’یونان میں حادثے کا شکار بدقسمت کشتی میں کم از کم 209 پاکستانی سوار تھے‘

شائع June 22, 2023
14 جون کو یونان کے قریب بحیرہ روم میں تقریباً 400 پاکستانیوں سمیت 800 تارکین وطن پر مشتمل کشتی ڈوب گئی تھی — فائل فوٹو: اے پی
14 جون کو یونان کے قریب بحیرہ روم میں تقریباً 400 پاکستانیوں سمیت 800 تارکین وطن پر مشتمل کشتی ڈوب گئی تھی — فائل فوٹو: اے پی

گزشتہ ہفتے یونان کے قریب سمندر میں گنجائش سے زیادہ افراد لے کر ڈوبنے والی کشتی پر کم از کم 209 پاکستانی ’متاثرین‘ سوار تھے۔

یہ انکشاف جمعرات کے روز غیر ملکی خبر رساں ادارے ’رائٹرز‘ کو پاکستانی تحقیقاتی ایجنسی کی جانب سے فراہم کردہ اعداد و شمار کے جائزے کے بعد سامنے آیا ہے۔

گزشتہ ہفتے یونان کے قریب بحیرہ روم میں تقریباً 400 پاکستانیوں سمیت 800 تارکین وطن پر مشتمل کشتی ڈوب گئی تھی جن میں سے محض 104 افراد کو زندہ ریسکیو کیا جاسکا، سیکڑوں افراد تاحال لاپتا ہیں اور مزید لوگوں کو زندہ حالت میں ڈھونڈ نکالنے کے امکانات تقریباً صفر ہیں۔

دو روز قبل سمندر سے مزید 3 لاشیں نکالے جانے کے بعد سانحے میں جاں بحق ہونے والوں کی مصدقہ تعداد 81 تک پہنچ گئی تھی۔

وفاقی تحقیقاتی ایجنسی (ایف آئی اے) نے کہا کہ 209 سوار افراد کی موجودگی کی تعداد ان خاندانوں کی فراہم کردہ معلومات پر مبنی ہے جنہوں نے یہ کہا کہ ان کے رشتہ دار لیبیا سے یونان جانے والی کشتی میں سوار تھے اور وہ ابھی تک لاپتا ہیں۔

سرکاری طور پر حادثے میں مرنے والوں کی تعداد اب تک 82 ہے اور زندہ بچ جانے والوں کی تعداد 104 ہے جن میں سے 12 پاکستانی بھی شامل ہیں۔

ایف آئی اے اسلام آباد زون کے ڈائریکٹر رانا عبدالجبار نے رائٹرز کو بتایا ان اعداد و شمار کی تصدیق کے لیے تحقیقات جاری ہیں۔

حکومت نے ایف آئی اے کو سانحہ یونان کی تحقیقات کا کام سونپا ہے۔

خیال کیا جاتا ہے کہ مختلف ممالک کے کئی سو افراد کشتی پر سوار جب کہ اس حادثے کو خطے کے لیے برسوں کا بدترین سمندری سانحہ قرار دیا جا رہا ہے۔

پاکستانی حکومت نے تاحال باضابطہ طور پر اس بات کی تصدیق نہیں کی کہ ڈوبنے والی کشتی پر اس کے کتنے شہری سوار تھے، لیکن مرنے والوں کی شناخت میں یونان کی مدد کے لیے ڈی این اے سیمپلز لینے کا آغاز کردیا گیا ہے۔

ایف آئی اے کی جانب سے شیئر کیے گئے اعداد و شمار کے مطابق 181 افراد کا تعلق پاکستان کے چاروں صوبوں اور 28 کا آزاد و خود مختار جموں و کشمیر سے ہے، حکام نے 201 خاندانوں سے ڈی این اے نمونے حاصل کیے ہیں۔

عینی شاہدین نے بتایا کہ 400 سے 750 کے درمیان لوگ 20 سے 30 میٹر لمبی (65 سے 100 فٹ) ماہی گیری کے لیے استعمال ہونے والی کشتی پر سوار تھے، کشتی 14 جون کی صبح جنوبی ساحلی ٹاؤن پائلوس سے تقریباً 50 میل (80 کلومیٹر) دور الٹنے کے بعد ڈوب گئی۔

انسانی اسمگلروں کے خلاف 54 مقدمات درج کرلیے گئے، ایف آئی اے

دوسری جانب آج جاری ہونے والے ایک بیان میں ایف آئی اے کے ترجمان نے کہا کہ لاہور، گوجرانوالہ اور گجرات میں انسانی اسمگلروں کے خلاف 54 مقدمات درج کیے گئے ہیں۔

ایف آئی اے لاہور زون نے کہا کہ انسانی اسمگلروں کے خلاف کریک ڈاون جاری ہے جس کے دوران اب تک 17 انسانی اسمگلرز گرفتار کر لیے، گجرات سرکل نے 7، لاہور نے 2 جبکہ گجرانوالہ سرکل نے 8 انسانی اسمگلرز کو گرفتار کیا، کشتی حادثے میں ملوث انسانی اسمگلروں کے خلاف 54 مقدمات درج کر لیے گئے ہیں۔

ترجمان ایف آئی اے نے کہا کہ انسانی اسمگلروں کے خلاف مقدمات ایف آئی اے لاہور، گوجرانوالہ اور گجرات میں درج کیے گئے، اینٹی ہیومن ٹریفکنگ سرکل لاہور نے 5، گجرات سرکل نے 18 اور گوجرانوالہ سرکل نے 31 مقدمات درج کیے۔

اس میں بتایا گیا کہ اب تک 167 لاپتا نوجوانوں کے خاندانوں کے ڈی این اے سیمپلز حاصل کر لیے گئے، ڈی این اے سیمپلز یونان کشتی حادثے میں جاں بحق ہونے والے افراد کی شناخت کے لیے حاصل کیے گئے۔

ایف آئی اے نے کہا کہ انسانی اسمگلنگ میں ملوث عناصر کو کیفر کردار تک پہنچایا جائے گا، لواحقین کی نشاندہی پر ٹیمیں مختلف علاقوں میں چھاپے مار رہی ہیں، سانحے میں ملوث تمام انسانی اسمگلرز کی گرفتاری تک انٹیلی جنس بنیادوں پر کریک ڈاون جاری رہے گا۔

کارٹون

کارٹون : 21 دسمبر 2024
کارٹون : 20 دسمبر 2024