’ہر حمل ایک پُل صراط ہے جس پر چلتی عورت ہر قدم پر ڈگمگاتی ہے‘
ہانپتی کانپتی، قدرے فربہ، معصوم چہرے پر ہوائیاں اور ساتھ میں مرنجاں مرنج صاحب!
’میں بہت پریشان ہوں، مرنا نہیں چاہتی میرے تین بچے ہیں۔ سب ڈاکٹروں نے بہت ڈرایا ہے۔ کوئی میرا کیس نہیں لے رہا۔ کیا آپ مجھے لیں گی؟‘
’آپ بیٹھیے تو سہی، پھر دیکھتے ہیں‘۔
’پچھلے تینوں بچے سیزیرین سے ہوئے۔ اب یہ چوتھا بچہ ہے۔ الٹرا ساؤنڈ میں نظر آیا کہ آنول نیچے ہے (placenta pevia) لیکن اس کے ساتھ کچھ اور شک بھی ہوا میری ڈاکٹر کو ۔۔۔ انہوں نے ایم آر آئی کروانے کو کہا۔ ہم نے فورا کروایا۔ ان کا شک ٹھیک نکلا، جڑوں والی آنول نکلی جو بچے دانی سے باہر تک جا چکی ہے‘۔ وہ چہکوں پہکوں رونے لگیں۔
’دیکھیے روئیے نہیں، بات پوری کیجیے‘۔ ہم نے دھیرے سے کہا۔
’میں جس ڈاکٹر کو بھی دکھاتی ہوں وہ کیس لینے سے انکار کر دیتی ہیں۔ ان کا کہنا یہ ہے کہ پرائیویٹ اسپتال میں ہمارا کیس نہیں ہو سکتا‘، وہ روتے ہوئے بولیں۔
’کہتے تو وہ ٹھیک ہیں‘، ہم نے کہا۔
’کیا مطلب؟ یعنی کوئی حل نہیں میری تکلیف کا؟ کیا کروں پھر میں؟‘
’ہم نے یہ کب کہا کہ آپ کی تکلیف کا کوئی حل نہیں۔۔۔ ہم نے تو اس بات کی تائید کی ہے کہ پرائیویٹ اسپتال میں آپ کا آپریشن نہیں ہو سکتا‘۔
’کیا کروں پھر؟ پاکستان چلی جاؤں؟ تین بچے ہیں، اسکول جاتے ہیں۔ ان کا کیا کروں؟ کون سنبھالے گا انہیں؟ لیکن مجھے آپ کے پاس بھیجنے والی ڈاکٹر نے تو کہا تھا کہ آپ میرا کیس کر سکتی ہیں،‘ وہ مزید پریشان ہوئیں۔
’ٹھیک کہا تھا انہوں نے‘۔ ہم مسکرا کر بولے۔
’لیکن آپ تو کہہ رہی ہیں کہ پرائیویٹ اسپتال میں نہیں ہو سکتا‘۔
’وہ بھی ٹھیک ہے‘۔ ہم مزید مسکرائے۔
’پھر۔۔۔ کیسے؟‘
’بھئی سرکاری اسپتال میں کیا جاسکتا ہے نا آپ کا کیس۔۔۔‘
’لیکن سرکاری اسپتال تو صرف مقامی لوگوں کے لیے ہیں، مجھے کیسے لیں گے وہ لوگ؟‘ ان کی پریشانی ختم ہونے کو ہی نہیں آرہی تھی۔
’سنو، پریشان نہ ہو۔ ہم ریفر کریں گے تمہیں سرکاری اسپتال۔ پھر تم ہماری او پی ڈی میں آنا، ہم تمہیں قبول کریں گے۔۔۔ بس اتنی سی بات ہے‘۔
’ڈاکٹر، کیا آپ سچ کہہ رہی ہیں؟‘ وہ آنکھیں پھیلاتے ہوئے بولی۔
’تو کیا ہم جھوٹ بول رہے ہیں؟‘ ہم ہنس کر بولے۔
یہ پاکستانی مریضہ ایک پرائیویٹ اسپتال میں ہمیں دکھانے آئی تھیں۔ خیر مریض کی قومیت کوئی بھی ہو، ڈاکٹر کا کام اس کی مدد کرنا ہے سو ہم نے کی۔ جس سرکاری اسپتال میں ہم ملازم ہیں، ان کو وہاں رجسٹر کروا دیا۔ وہ ہائی شوگر کی مریضہ بھی تھیں، کچھ ہفتوں میں وہ کنٹرول کیا اور آپریشن کی تاریخ مقرر کی۔
جڑوں والی آنول کا مطلب ہے کہ آنول (placenta) بچے دانی سے اس بری طرح جڑی ہے کہ اسے کھرچ کر بھی نکالنا ممکن نہیں۔ اگر کوئی ایسا کرے گا تو خون کا اخراج اس قدر زیادہ ہوگا جو کسی کے قابو میں آنے والا نہیں اور یہ صرف زچہ کی جان لے کر ہی ٹل سکتا ہے۔
یہ جو آپ سنتے ہیں نا کہ بچہ تو ٹھیک ٹھاک ہوا لیکن زچگی کے بعد عورت چل بسی، اس کی وجوہات میں سب سے بڑی وجہ بچے کی پیدائش کے بعد خون کا نہ رکنا ہے۔ بچے دانی ایک ڈھیلا سا تھیلا بن جاتی ہے جس کے راستے جسم کا سارا خون بہہ جاتا ہے۔ یہ ایسی تکالیف ہیں جو چھوٹے شہروں کی اسپیشلسٹ بھی قابو نہیں کر سکتیں تو سوچیے دائیاں، نرسیں یا ایل ایچ وی کیا کرتی ہوں گی؟
جڑوں والی آنول کی 3 اقسام ہوتی ہیں۔
- پلیسنٹا ایکریٹا: اس میں آنول بچہ دانی کی دیوار کے اندر دھنس جاتی ہے۔
- پلیسنٹا انکریٹا: آنول بچہ دانی کی دیوار کو چیرتے ہوئے باہر نکل جاتی ہے۔
- پلیسنٹا پر کریٹا: آنول اردگرد کے اعضا کو لپیٹ میں لے لیتی ہے جیسے کہ مثانہ۔
آپریشن سے کچھ دن پہلے انہیں اور شوہر کو بلا کر ہم نے بتایا کہ اگر جڑوں والی آنول سے خون بہنا بند نہ ہوا تو ہمیں بچہ دانی نکالنا پڑے گی۔ دونوں بہت فکر مند ہوئے مگر جھٹ سے دستخط کر دیے کہ بچوں کی ماں کی زندگی سے زیادہ کچھ اور اہم نہیں ہوتا۔
وہ ہر وزٹ پر ہمیں بتاتیں کہ ان کے والدین، بہن بھائی کس قدر پریشان ہیں۔ والدین کو تو انہوں نے ویزا بھیج کر بلوا بھی لیا اور وہ بے چارے ضعیف العمری کے باوجود دوڑے چلے آئے۔ اولاد سب کو اتنی ہی پیاری ہوتی ہے۔
ایک اور مشکل آن پڑی۔ ہماری چھٹیاں شروع ہو رہی تھیں سو ہمیں ان کا آپریشن ہر حال میں چھٹی پر جانے سے پہلے کرنا تھا۔ عام طور پر ڈاکٹر ایسا نہیں کرتے کیونکہ اگر آپریشن کے دو چار دن بعد کوئی پیچیدگی ہوجائے تو لیڈ سرجن کا موجود ہونا ضروری ہوتا ہے۔ لیکن یہاں مسئلہ کچھ اور تھا۔ ہماری روانگی کی سیٹ بُک اور چھٹی منظور ہوچکی تھی۔
اللہ کا نام لےکر آخری سے ایک دن پہلے آپریشن طے کیا۔ پہلے سے ہی 6 بوتل خون کا بندوبست کرکے رکھنا لازمی تھا۔
ایسے کیسسز میں مریضوں کو ایکس رے ڈپارٹمنٹ بھیج کر بچے دانی کو خون سپلائی کرنے والی آرٹریز کو پریشر سے بند ہونے والی نالی ڈلوائی جاتی ہے۔ آپریشن کے دوران بچہ نکالنے کے بعد اس نالی کا پریشر بڑھا دیا جاتا ہے تاکہ آرٹریز یا خون سپلائی کرنے والی شریانیں بند ہوجائیں اور خون کم سے کم ضائع ہو۔ ہمیں علم نہیں کہ پاکستان کے بڑے ٹیچنگ اسپتالوں میں یہ انتظام اب ہے کہ نہیں؟ جب تک ہم تھے، تب کچھ ایسا نہیں تھا۔
آپریشن ٹیبل پر وہ خاموشی سے لیٹی تھیں۔ ایکس رے ڈپارٹمنٹ میں پریشر والی نالی ران کے راستے شریانوں میں ڈالی جا چکی تھی۔ ان کی آنکھوں میں کچھ نمی تھی، ہم نے ہاتھ پکڑ کر یہ کہتے ہوئے انہیں تسلی دی کہ سب ٹھیک ہوگا۔
آپریشن شروع کیا۔ پیٹ کھولا، بچہ دانی کے آس پاس ابنارمل شریانوں کا انبوہ۔۔۔ جڑوں والی آنول کا کمال۔ ہم نے ٹرینی ڈاکٹر کو دکھایا جس کی آنکھیں حیرت سے باہر کو ابل پڑیں۔ ’اُف خدایا! کیا کریں گی اب آپ؟‘ انتڑیوں نے بھی چپکنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی تھی اور مثانہ تو ویسے ہی استاد ہے بچے دانی سے چپکنے میں۔
خیر ان سب سے بچتے بچاتے ہم نے بچہ دانی کھولی، بچہ نکالا، نرس کے حوالے کیا۔۔۔ بس پھر چراغوں میں روشنی نہ رہی۔ چاروں طرف سے شریانیں یوں خون اُگل رہی تھیں جیسے آتش فشاں پہاڑ سے لاوا۔ جڑوں والی آنول کو ہاتھ لگائے بغیر ہر طرف خون کا سمندر۔
سسٹر، ہسٹرکٹمی کلیمپس (Hysterectomy clamps) دیں فوراً۔۔۔ بچے دانی بچائی نہیں جاسکتی’، ہم نے اعلان کیا۔
تکنیکی اعتبار سے بچہ دانی نکالنا بہت مشکل تھا کیونکہ جڑوں والی آنول بچے دانی سے علیحدہ کرنا ممکن نہیں سو بچے دانی کا حجم چھوٹا نہیں ہو سکتا۔ بچہ دانی کو نکالنے کے لیے چپکا ہوا مثانہ اور انتڑیاں احتیاط سے کاٹ کر علیحدہ کرنا لازم تھا لیکن خون کی ہر طرف گرتی آبشاروں میں کچھ نظر آنا محال تھا۔
ہماری نرس ایک ہاتھ سے بہتے خون کو سکشن مشین سے صاف کرتی اور دوسرے ہاتھ سے ہمیں اوزار پکڑاتی۔ ہماری ایک اسسٹنٹ بچے دانی کو دونوں ہاتھوں میں سیدھا تھامے کھڑی اور دوسری مثانے اور انتڑیوں کو اوزار سے پکڑے ہوئے۔۔۔ اور ہم دیوانہ وار کبھی قینچی سے مثانہ علیحدہ کریں، کبھی انتڑیاں اور کبھی بچے دانی کو اوزار لگا کر کاٹیں اور کٹی ہوئی جگہ کو دھاگے سے گرہ لگا کر بند کریں۔
بچے دانی کو دونوں طرف 4 سے 6 کلیمپس یعنی اوزار لگا کر کاٹا جاتا ہے اور جہاں سے کاٹ کر علیحدہ کیا جاتا ہے اسے ایک خاص قسم کے دھاگے سے باندھ کر گرہ لگائی جاتی ہے۔ گرہ بھی اس قدر مضبوط ہونی چاہیے کہ اس حصے کو مضبوطی سے تھام کر رکھے اور وہاں سے خون لیک نہ ہو۔
ہسٹرکٹمی کرتے وقت ایک اور چیز جو گائناکالوجسٹ کو پریشان کرتی ہے، وہ گردوں سے پیشاب لانے والی نالیاں ہیں جو مثانے میں کھلتی ہیں۔ یہ نالیاں بچے دانی کے بہت قریب سے گزرتی ہیں اور اگر ان کا خیال نہ کیا جائے تو بہت سے اناڑی ڈاکٹر انہیں بھی بچے دانی کے ساتھ کاٹ دیتے ہیں۔ انجام آپ خود سوچ لیجیے۔
خیر اس مریضہ کے ساتھ ہم چومکھی لڑ رہے تھے۔ ’ڈاکٹر پلیز خون لگا دیں، خون کا اخراج بہت زیادہ ہے‘۔ ہم نے اینیستھٹسٹ کو مخاطب کیا۔ ’جی جی آپ فکر نہ کریں ہم پہلے سے دینا شروع کر چکے ہیں‘۔
اس وقت کمرے میں دو سینیئر اینیستھٹسٹ، ایک اسسٹنٹ، پریشر والی نالی کے لیے ایکس رے ڈپارٹمنٹ کی دو نرسیں، ایک نرس اور ایک ڈاکٹر بچے کے لیے، ہم اور دو ڈاکٹر، ایک نرس ہمارے ساتھ اور ایک سے دو فلوٹر نرسیں جو ہر چیز مہیا کرنے کی ذمہ دار، مریض سمیت تقریباً 13 لوگ موجود تھے۔
ہم تیزی سے کاٹنے اور سینے میں مصروف تھے۔ گو کہ بچہ دانی کو خون مہیا کرنے والی شریانوں کو ہم کاٹ کر باندھ چکے تھے مگر خون کا اخراج کم ہونے کو نہیں آتا تھا۔ جڑوں والی آنول بچے دانی کے باہر تک آچکی تھی اور ویجائنا اور سروکس کی شریانیں بھی اسے خون مہیا کر رہی تھی۔ جب تک ہم ویجائنا تک نہ پہنچتے، خون نہیں رُک سکتا تھا۔ چاروں طرف اوزار، مختلف اقسام کے دھاگے، خون کو پونچھنے والے ڈھیروں کپڑے، نالیاں اور سکشن مشین خون سے بھر چکی تھی۔ ہمارے پاؤں خون سے بھیگ چکے تھے کہ خون میز کی سائیڈ سے بہتا ہوا فرش تک پہنچ چکا تھا۔ ایک نرس نے فوراً ہمارے پاؤں کے نیچے کپڑا بچھایا تاکہ ہم پھسل نہ جائیں۔
ہمیں کہنے دیجیے کہ کچھ لمحوں کے لیے ہمیں لگا کہ یہ بچ نہیں پائیں گی۔ ہمارے دل کو دھکا سا لگا اور کچھ ثانیوں (سیکنڈز) کے لیے وہ دھڑکنا بھول گیا اور جب دھڑکا تو ایسے لگا کہ سرپٹ دوڑتا ہوا بے قابو گھوڑا ہو۔ ہم نے اپنے حواس کو قابو کیا اور اپنے آپ سے کہا کہ ہمت کیوں ہار رہی ہو؟ اپنا کام جاری رکھو۔۔۔ محاذ جنگ ہے یہ، آخری منٹ تک لڑو۔
خیر جناب، اس خیال کو جھٹکتے ہوئے ہم اپنے آپ میں واپس آئے۔۔۔ وہ اپنا آپ جو کبھی گھبراتا نہیں اور شکست ماننے کو تیار نہیں ہوتا۔ بس یہی ہے ہمارے ہاتھ میں، باقی کھیل تو کسی اور کا ہے۔
بچہ دانی نکال دی، پوری کی پوری۔ ویجائنا اور سروکس کی سب شریانیں پکڑ لیں۔ مثانے میں نیلے رنگ کا پانی ڈال کر چیک کرلیا کہ کہیں کوئی سوراخ تو نہیں ہوگیا۔ انتڑیاں بھی ٹھیک دکھتی تھیں۔ جہاں سے بچہ دانی کو کاٹ کر علیحدہ کیا تھا وہاں سے ہلکا ہلکا خون رس رہا تھا۔ ان پر پریشر بنانے والی کچھ ایسی چیزیں دبا کر رکھیں جو جسم میں چھوڑی جاسکتی ہیں۔ وقت کے ساتھ وہ گھل کر ختم ہو جاتی ہیں۔
انیستھٹسٹ خون کی 10ویں بوتل لگا رہے تھے۔ ہمارے اسسٹنٹ پیٹ کو بند کرکے ٹانکے لگا رہے تھے۔ نرس ہمارا گاؤن کھولتے ہوئے ہمیں ہدایت کر رہی تھی کہ ہم باتھ روم میں جا کر پاؤں اور ٹانگیں دھو لیں۔
آپریشن تھیٹر میں پریشانی اور فکر کی لہریں سکون اور بے فکری میں تبدیل ہوچکی تھیں۔
مریضہ کا تقریباً 3 لیٹر خون ضائع ہوا تھا۔ ہم نے اسے 6 بوتلیں لال خون کی اور 4 سفید خون کی دی تھیں۔ مزید کا فیصلہ بعد میں ہیموگلوبن کی رپورٹ پر کیا جانا تھا۔
آپریشن تھیٹر سے ہم باہر نکلے۔ مریضہ کے صاحب پریشانی سے ادھر ادھر ٹہلتے ہوئے نظر آئے اور والدہ ایک کونے میں بیٹھی تسبیح کا ورد کرتے ہوئے۔ ہم نے سب کو تسلی دی۔
اس شام انتہائی تھکاوٹ کے عالم میں ہم بینچ پر بیٹھے کافی پیتے ہوئے سوچ رہے تھے کہ کیا پاکستان میں عورت کو حاملہ کرتے ہوئے کوئی مرد یہ بات سوچتا ہے کہ ہر حمل تکنیکی طور پر عورت کو موت کے قریب کرتا ہے؟ انفیکشن ہوجائے، خون زیادہ بہہ جائے، بچے دانی پھٹ جائے اور نہ جانے کیا کیا کچھ۔۔۔ ہر حمل ایک پُل صراط ہے جس پر چلتی عورت ہر قدم پر ڈگمگاتی ہے کہ اب گری کہ تب گری۔ بچ جانا صرف چانس پر ہے اس لیے کہ بچ نکلنے کی تدابیر نہ حکومت کے پاس ہیں اور نہ ہی لوگوں کی جیب اس قابل ہے کہ کسی انہونی کے لیے عورت کو کسی ایسی جگہ پہنچا سکیں جہاں عورت کے لیے کچھ کیا جاسکے۔
زچگی میں ہونے والی موت پر یہ سوچ لینا کہ اللہ کی مرضی یہی تھی کا مطلب یہ ہے کہ مرد پہاڑ کی چوٹی پر چڑھ کر چھلانگ لگائے یا چلتی ریل کے آگے لیٹ جائے۔ مر جائے تو سوچ لیا جائے کہ یہی تھی اللہ کی مرضی!