یونیورسٹی میں ہولی، ’ملکی تشخص پر منفی اثرات پڑے‘، ایچ ای سی کا اعتراض
ہائر ایجوکیشن کمیشن (ایچ ای سی) نے جامعات میں ’ہولی‘ کا تہوار منانے پر اعتراض کرتے ہوئے دعویٰ کیا ہے کہ اس تقریب کے انعقاد پر تحفظات کا اظہار کیا گیا ہے اور اس سے ملکی تشخص پر منفی اثرات مرتب ہوئے۔
کمیشن نے یہ اعتراض ایک خط میں کیا جو ہائر ایجوکیشن کمیشن کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر شائستہ سہیل نے مختلف تعلیمی اداروں کے وائس چانسلرز اور سربراہان کو تحریر کیا ہے۔
خط میں کہا گیا کہ ہائر ایجوکیشن کمیشن علم کے پھیلاؤ کا ذمہ دار ہے اور نوجوانوں کو مہذب افراد میں تبدیل کرنے کے لیے انتہائی اہم ہے جبکہ ملک کی ضروریات کو مدنظر رکھتے ہوئے ماہر افرادی قوت بھی تیار کرتا ہے۔
اس حوالے سے کہا گیا کہ ہائر ایجوکیشن کمیشن کی حتمی ذمہ داری ہے کہ وہ نوجوانوں کو سیکھنے، بالغ اور ذمہ دار شہری بنانے کے لیے تیار کرے جو ملک کی باگ ڈور سنبھالنے اور قوم کی تعمیر میں اپنا کردار ادا کرنے کے لیے تیار ہو سکیں۔
خط میں مزید کہا گیا کہ ملک بھر میں سرکاری اور نجی شعبے کے اعلیٰ تعلیم کے اداروں میں ہمارے نوجوانوں کو ہمدرد، سمجھدار اور بہتر افراد کے طور پر تیار کیا جاتا ہے تاکہ انہیں اس طرح سنوارا جا سکے کہ وہ خرابیوں سے بچتے ہوئے زندگی کی راہیں طے کر سکیں۔
ایگزیکٹو ڈائریکٹر نے خط میں کہا کہ ہائر ایجوکیشن کمیشن اپنی پالیسیاں ہماری اپنی ثقافت، اقدار اور روایات میں شامل تصورات کو مدنظر رکھ کر بنا رہا ہے اور اس طرح سے قوم کے نظریے کو محفوظ رکھا جا رہا ہے۔
مراسلے میں لکھا گیا کہ بدقسمتی سے ایسی سرگرمیوں کا مشاہدہ کرنا افسوسناک ہے جو ہماری سماجی و ثقافتی اقدار سے بالکل مطابقت نہیں رکھتیں اور ملک کے اسلامی تشخص کی تباہی کی منظر کشی کرتی ہیں، ایسی ہی ایک باعث تشویش مثال اس وقت دیکھنے کو ملی جب ہندوؤں کے تہوار ’ہولی‘ کے موقع پر جوش و خروش کا مظاہرہ کیا گیا۔
خط میں کہا گیا ہے کہ یونیورسٹی کے پلیٹ فارم سے بڑے پیمانے پر رپورٹ/ تشہیر شدہ واقعہ باعث تشویش ہے اور اس نے ملک کے تشخص کو بری طرح متاثر کیا ہے۔
اگرچہ ہائر ایجوکیشن کمیشن کے خط میں یونیورسٹی کا نام نہیں لیا گیا لیکن ایسا واقعہ اسلام آباد میں قائد اعظم یونیورسٹی میں 8 مارچ کو ہولی کے موقع پر رونما ہوا تھا جس نے سوشل میڈیا پر بھی بے پناہ توجہ حاصل کی تھی۔
سوشل میڈیا پر گردش کرنے والی ایک ویڈیو میں طلبہ کو رقص اور ہوا میں رنگ پھینکتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے جبکہ وہاں بہت بلند آواز میں میوزک بھی چل رہا تھا۔
اعلیٰ تعلیمی اداروں کے سربراہان کو لکھے گئے خط میں مزید کہا گیا کہ گو کہ اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ ثقافتی، نسلی اور مذہبی تنوع ایک جامع اور روادار معاشرے کو پروان چڑھاتا ہے اور تمام عقائد اور مسالک کا احترام کرتا ہے، تاہم اسے ایک محدود انداز میں کرنے کی ضرورت ہے۔
خط میں کہا گیا کہ طلبہ کو ایسے خود غرض لوگوں کے بارے میں آگاہ کرنے کی ضرورت ہے جو انہیں اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرتے ہیں۔
خط میں ہائر ایجوکیشن کے اداروں کو مشورہ دیا گیا کہ وہ ایسی تمام سرگرمیوں سے خود کو دور رکھیں کیونکہ یہ ملکی تشخص اور معاشرتی اقدار سے مطابقت نہیں رکھتے۔
کمیشن کو تنقید کا سامنا
ہائر ایجوکیشن کمیشن کے خط پر آن لائن صارفین نے غم و غصے کا اظہار کیا، سندھی صحافی وینگاس نے کہا کہ یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ ہولی اور دیوالی کے ہندو تہوار سندھی ثقافت کا حصہ ہیں۔
انہوں نے کہا کہ اسلام آباد نہ تو ہماری سندھی زبان کو قبول کرتا ہے اور نہ ہی ہندو تہواروں کا احترام کرتا ہے۔
سماجی کارکن عمار علی جان نے کہا کہ کمیشن کو پاکستان میں تعلیم کی ابتر حالت پر زیادہ فکر مند ہونا چاہیے۔
ان کا کہنا تھا کہ ہماری یونیورسٹیاں سرفہرست ایک ہزار جامعات کی فہرست میں بھی شامل نہیں ہیں، اس کے باوجود ہائر ایجوکیشن کمیشن طلبہ کے ہولی منانے سے زیادہ پریشان ہے، اس طرح کی غلط ترجیحات معاشرے میں فکری و اخلاقی زوال کا سبب ہیں۔
محقق عمار رشید نے کمیشن کے خط کو ’مذہبی تعصب‘ پر مبنی قرار دیا۔