پناہ گزینوں کے میزبان 20 ممالک نے ایک سال میں قرضوں پر 23 ارب ڈالر سود ادا کیا، رپورٹ
کم اور متوسط آمدنی والے ممالک میں پناہ گزینوں کی میزبانی کرنے والے سرفہرست 20 ممالک بشمول پاکستان نے صرف سال 2020 میں بیرونی قرضوں پر 23 ارب ڈالر سے زائد سود کی ادائیگی کی۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق آج (منگل کو) عالمی یوم پناہ گزین کے موقع پر ’سیو دی چلڈرن‘ نامی تنظیم کی جانب سے جاری کردہ ’امید کی قیمت‘ کے عنوان سے جاری کردہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ کم آمدنی والے ممالک کی اکثریت اس وقت یا تو قرضوں کے مسائل میں مبتلا ہیں یا اس کے شدید خطرے کا شکار ہیں۔
رپورٹ میں کہا گیا کہ پناہ گزینوں کے میزبان سرفہرست 14 میں سے چار ممالک یعنی تقریباً ایک تہائی نے 2020 میں تعلیم کے مقابلے میں بیرونی قرضوں کی ادائیگی پر زیادہ رقم خرچ کی۔
رپورٹ کے مطابق پاکستان کم از کم 17 لاکھ 43 ہزار 785 پناہ گزینوں کی میزبانی کرتا ہے۔
رپورٹ میں متنبہ کیا گیا کہ بہت سے پناہ گزین ایک واقعے کے بجائے متعدد ایک دوسرے سے جڑے عوامل کی وجہ سے بے گھر ہوئے، خطرناک اندازوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ نقل مکانی کی بے مثال شرحیں کم ہونے کا کوئی امکان نہیں۔
حالیہ تخمینوں نے تجویز کیا ہے کہ صرف موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے سال 2050 تک ممالک کے اندر اور سرحدوں کے پار مزید ایک ارب 20 کروڑ افراد دربدر ہو سکتے ہیں۔
اعداد و شمار سے پتا چلتا ہے کہ دنیا کے 76 فیصد مہاجرین کم اور متوسط آمدنی والے ممالک میں رہتے ہیں جن کے تعلیمی نظام پہلے ہی بچوں کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں۔
پڑے پیمانے پر وسائل کم ہیں اور بہت سے ممالک کو اس عالمی عوامی بھلائی کے باوجود جو مہاجرین کی میزبانی کرنے والے ممالک اپنی سرحدیں کھول کر اور دنیا کے مہاجرین کو تعلیم دے کر انجام دیتے ہیں، بہت معمولی یا کوئی بین الاقوامی حمایت حاصل نہیں۔
پناہ گزینوں کی تعلیم اور میزبان حکومتوں کے لیے مالی اعانت کی عمومی عدم موجودگی طویل مدتی فنڈنگ، واضح مالیاتی اہداف اور وسائل کو متحرک کرنے کے منصوبوں کی کمی، اور عطیہ دہندگان کے درمیان ناقص ہم آہنگی کی وجہ سے بڑھ جاتی ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا کہ دنیا کا سب سے بڑا نقل مکانی کا بحران بھی مزید طول پکڑ گیا ہے، اوسط انسانی بحران 9 سال پر محیط ہے اور پناہ گزینوں کی طویل صورتحال ایک اندازے کے مطابق 26 سال تک جاری رہتی ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا کہ دنیا کے پناہ گزینوں میں بچوں کی تعداد زیادہ ہے، وہ عالمی آبادی کا ایک تہائی سے بھی کم ہیں، لیکن دنیا کی جبری طور پر بے گھر ہونے والی آبادی کا تقریباً 40 فیصد ہے۔
سال 2021 کے آخر میں ایک کروڑ 26 لاکھ بچے پناہ گزین تھے البتہ حقیقی اعداد و شمار اس سے بھی زیادہ ہونے کا امکان ہے کیونکہ 2022 میں نقل مکانی کی شرح میں اضافہ ریکارڈ کیا گیا۔
پناہ گزینوں کے عالمی دن کے موقع پر ایک پیغام میں اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتریس نے کہا کہ اقوام متحدہ کو میزبان ممالک کے لیے زیادہ بین الاقوامی حمایت کی ضرورت ہے۔
گلوبل کمپیکٹ فار ریفیوجیز کی جانب سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ معیاری تعلیم، اچھے کام، صحت کی دیکھ بھال، رہائش اور سماجی تحفظ تک رسائی کو فروغ دیا جائے۔