برسوں کی کشیدگی کا خاتمہ، متحدہ عرب امارات اور قطر کا سفارت خانے دوبارہ کھولنے کا اعلان
کئی برس کی کشیدگی کے بعد متحدہ عرب امارات (یو اے ای) اور قطر نے اپنے دوطرفہ سفارتی تعلقات بحال کرتے ہوئے اپنے سفارتخانے دوبارہ کھولنے کا اعلان کردیا۔
غیر ملکی خبر رساں اے ’ایف پی‘ کی خبر کے مطابق 6 سال قبل دونوں خلیجی حریفوں کی جانب سے علاقائی ناکہ بندی کے دوران کشیدگی کے باعث تعلقات منقطع ہوگئے تھے۔
وسائل سے مالا مال بادشاہتوں نے تقریباً چار سالہ سفارتی اور نقل و حمل کی ناکہ بندی کے خاتمے کے بعد جنوری 2021 میں دو طرفہ ریاستی تعلقات بحال کردیے تھے جب کہ ناکہ بندی نے چھوٹے سے ملک قطر کو دنیا سے الگ تھلگ کردیا تھا۔
متحدہ عرب امارات کی سرکاری خبر رساں ایجنسی (وام) پر جاری ایک بیان میں کہا گیا کہ متحدہ عرب امارات اور قطر کی ریاستوں نے دونوں ممالک کے درمیان سفارتی نمائندگی بحال کرنے کا اعلان کیا ہے۔
اس میں کہا گیا ہے کہ دونوں ممالک دوحہ میں موجود متحدہ عرب امارات کے سفارت خانے اور ابوظہبی میں موجود قطر کے سفارت خانے اور دبئی میں اس کے قونصل خانے میں دوبارہ کام شروع کر رہے ہیں۔
اسی طرح کا بیان قطر کی وزارت خارجہ کی جانب سے بھی جاری کیا گیا ہے۔
سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، بحرین اور مصر نے 2017 میں قطر پر انتہا پسند تنظیموں کی حمایت اور ایران کے ساتھ قریبی تعلقات کا الزام لگاتے ہوئے اس کا سفارتی بائیکاٹ کردیا تھا اور نقل و حمل پر ناکہ بندی کردی تھی۔
قطر نے ان ممالک کی جانب سے عائد کردہ الزامات کی تردید کی۔
دونوں ممالک کی جانب سے سفارتی تعلقات کی بحالی ایسے وقت میں ہو رہی ہے جب کہ خلیجی ممالک کے درمیان دشمنی میں نرمی آئی ہے اور دو بڑے حریفوں سعودی عرب اور ایران نے مارچ میں سات سالہ تعطل کے بعد تعلقات بحال کرنے کا اعلان کیا تھا۔
اس کے بعد ہونے والے مفاہمت کے دوران قطر اور قریبی ہمسایہ ممالک بحرین نے اپریل میں اپنی دیرینہ مخاصمت کو ایک طرف رکتھے ہوئے تعلقات دوبارہ بحال کرنے شروع کردیے۔
ایران سعودیہ تعلقات میں اہم پیش رفت اس وقت ہوئی جب سعودی عرب کے وزیر خارجہ فیصل بن فرحان نے ہفتے کے روز ایران کا دورہ کیا اور صدر ابراہیم رئیسی سے ملاقات کی۔
اس سے قبل ایران نے رواں ماہ ریاض میں اپنا سفارت خانہ دوبارہ کھول دیا تھا۔
سنی عقیدہ رکھنے والی مسلم اکثرت والی بادشاہت اور شیعہ مسلک کی پیروی کرنے والی مذہبی ریاست ایران کے درمیان کشیدگی میں کمی اس لیے بہت اہم دکھائی دیتی ہے کہ وہ دونوں حریف طویل عرصے سے یمن سمیت خطے کے تنازعات میں مخالف فریقوں کی حمایت کرتے ہوئے اپنا اثر و رسوخ بڑھانے کے لیے کوشاں رہے ہیں۔