• KHI: Maghrib 6:14pm Isha 7:29pm
  • LHR: Maghrib 5:41pm Isha 7:02pm
  • ISB: Maghrib 5:45pm Isha 7:08pm
  • KHI: Maghrib 6:14pm Isha 7:29pm
  • LHR: Maghrib 5:41pm Isha 7:02pm
  • ISB: Maghrib 5:45pm Isha 7:08pm

ڈریپ کے سربراہ پر بے نامی فارماسیوٹیکل کمپنی چلانے کا الزام

شائع June 19, 2023
افسر نے الزام لگایا کہ چیف ایگزیکٹو افسر نے سال 2002 میں تقرری کے بعد سے کئی بے ضابطگیاں کیں — فائل فوٹو: اے پی پی
افسر نے الزام لگایا کہ چیف ایگزیکٹو افسر نے سال 2002 میں تقرری کے بعد سے کئی بے ضابطگیاں کیں — فائل فوٹو: اے پی پی

ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی آف پاکستان (ڈریپ) کے ایک افسر نے سیکریٹری صحت کو ایک خط لکھ کر الزام لگایا ہے کہ اتھارٹی کے چیف ایگزیکٹو افسر بے نامی دوا ساز کمپنی چلا رہے ہیں جو کھلم کھلا مفادات کے ٹکراؤ کا معاملہ ہے۔

ڈان اخبار میں شائع رپورٹ کے مطابق ڈریپ کے چیف ایگزیکٹو افسر عاصم رؤف نے کہا کہ افسر فضول شکایات درج کرنے کا عادی ہے اور اتھارٹی نے اس کے خلاف سخت کارروائی کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

وزارت قومی صحت سروسز کے ترجمان ساجد شاہ نے کہا کہ ماضی میں ڈریپ کے زیادہ تر سی ای اوز پر ایسے الزامات لگائے گئے لیکن ان میں سے کوئی بھی ثابت نہیں ہو سکا۔

ڈان کے پاس دستیاب خط میں کوئٹہ میں ڈریپ کے ڈپٹی ڈائریکٹر ڈاکٹر محمد علیم اختر نے دعویٰ کیا کہ چیف ایگزیکٹو افسر نے سال 2002 میں بی پی ایس۔18 میں ڈپٹی ڈرگ کنٹرولر کے طور پر اپنی تقرری کے بعد سے کئی بے ضابطگیاں کیں۔

علیم اختر نے اپنے خط میں دعویٰ کیا کہ قواعد کے مطابق سرکاری افسران پانچ سال کی سروس مکمل کیے بغیر پڑھائی کی چھٹی حاصل نہیں کر سکتے، لیکن عاصم رؤف اپنی تقرری کے صرف دو سال بعد 2004 میں مطالعہ کی چھٹی (پی ایچ ڈی) پر امریکا گئے جو سول سرونٹ اسٹڈی رولز 1996 کے خلاف تھا۔

اس خط کی نقل وزیر اعظم اور متعدد ریاستی اداروں کو بھی بھیجی گئی ہیں جس میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ چیف ایگزیکٹو افسر 2009 میں پانچ سال تک تمام مراعات حاصل کرنے کے باوجود پی ایچ ڈی کی ڈگری مکمل کیے بغیر واپس آئے۔

ڈریپ افسر نے الزام لگایا کہ چیف ایگزیکٹو افسر لاہور کی انڈسٹریل سُندر اسٹیٹ میں ایم ایس زیٹا فارماسیوٹیکلز چلا رہے تھے جس نے ڈریپ ایکٹ 2012 کے سیکشن 18 کے مطابق مفادات کے ٹکراؤ کو جنم دیا۔

خط کے ساتھ منسلک دستاویزات میں دعویٰ کیا گیا کہ عاصم رؤف نے 16 اکتوبر 2010 سے فارماسیوٹیکل کمپنی قائم کی اور اس کی ملکیت (بے نامی لین دین) سب سے پہلے اپنے بھائی عامر ولی رؤف کے نام کی، انہوں نے 3 ستمبر 2018 کو کمپنی اپنے بھائی کے نام سے اپنے سسر چوہدری عتیق قمر کے نام ٹرانسفر کی۔

ڈریپ افسر نے میسرز زیٹا فارماسیوٹیکلز لاہور کی پارٹنرشپ ڈیڈ کی نقل بھی منسلک کی جس میں ایک شق شامل کی گئی جس میں کہا گیا تھا کہ چوہدری عتیق قمر کی موت کی صورت میں جائیداد ڈریپ کے سربراہ عاصم رؤف کے نام منتقل کر دی جائے گی، افسر نے دعویٰ کیا کہ یہ بے نامی جائیداد کا ثبوت ہے۔

خط میں مزید دعویٰ کیا گیا کہ کمپنی میں زاہد مسعود ناصر نامی ایک اور پارٹنر بھی ہے لیکن معاہدے میں ایک اور شق شامل کی گئی تھی جس میں کہا گیا تھا کہ پہلے پارٹنر (زاہد مسعود ناصر) کی موت کی صورت میں جائیداد دوسرے پارٹنر کے نام منتقل کی جائے گی جو چیف ایگزیکٹو افسر کے سسر تھے۔

سیکریٹری صحت سے درخواست کی گئی کہ وہ اس معاملے کی انکوائری شروع کریں تاکہ ڈریپ میں کرپشن اور بے ضابطگیوں کے امکانات کا خاتمہ ہو۔

رابطہ کرنے پر ڈریپ کے سربراہ نے ڈان کو بتایا کہ شکایت کنندہ ایسی درخواستیں دائر کرنے کا عادی ہے کیونکہ وہ پہلے کوئٹہ یونیورسٹی میں تھا اور اس نے انتظامیہ کے خلاف بھی ایسی ہی درخواستیں دائر کی تھیں۔

انہوں نے کہا کہ اسی شخص نے ڈریپ کے سابق سربراہ ڈاکٹر اسلم افغانی کے خلاف بھی درخواست دائر کی تھی۔

انہوں نے ڈاکٹر عبید سمیت ڈریپ کے کچھ دیگر افسران کے خلاف بھی درخواستیں دائر کی ہیں، ہم نے ان کے خلاف قانونی کارروائی کرنے کا فیصلہ کیا ہے کیونکہ وہ بغیر کسی ثبوت کے الزامات لگاتے ہیں۔

ڈاکٹر عاصم رؤف سے جب الزامات کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے کہا کہ یہ سب بے بنیاد ہیں۔

وزارت قومی صحت سروسز کے ترجمان ساجد شاہ نے کہا کہ ماضی میں ڈریپ کے بیشتر چیف ایگزیکٹو افسران پر ایسے الزامات لگائے گئے لیکن ان میں سے کوئی بھی ثابت نہیں ہوسکا۔

انہوں نے مزید کہا کہ جب بھی ہمیں اس طرح کے خطوط اور درخواستیں موصول ہوتی ہیں تو ہم درخواست دہندہ سے اپنے الزامات کو ثابت کرنے کی درخواست کرتے ہیں، اس معاملے میں بھی اسی طرز عمل کی پیروی کی جائے گی تاہم مجھے یقین ہے کہ ڈریپ کے اندر اور باہر کے کچھ عناصر چیف ایگزیکٹو افسر پر دباؤ ڈالنے کی کوشش کر رہے ہیں، وزارت شفافیت پر یقین رکھتی ہے اور اس بات کو یقینی بنا رہی ہے کہ ڈریپ میں قواعد کی کوئی خلاف ورزی نہ ہو۔

کارٹون

کارٹون : 6 اکتوبر 2024
کارٹون : 4 اکتوبر 2024