آئی ایم ایف کی بیرونی فنانسنگ کی شرائط کو پورا کیا جارہا ہے، وزیر خزانہ
وزیر خزانہ اسحٰق ڈار نے کہا ہے کہ عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) نے بیرونی فنانسنگ کی شرائط رکھی جس کو پورا کیا جا رہا ہے لیکن تالی دونوں ہاتھوں سے بجتی ہے۔
خیال رہے کہ 6.7 ارب ڈالر قرض پروگرام کی مدت 30 جون کو ختم ہو رہی ہے، اس سے قبل پاکستان کو 2 قسطوں کی مد میں تقریباً 2.2 ارب ڈالر حاصل کرنا ہیں، آئی ایم ایف نے مالی سال 24-2023 کے بجٹ میں کیے گئے اقدامات پر سوالات اٹھائے ہیں جبکہ ریٹنگ ایجنسیوں نے خبردار کیا ہے کہ پاکستان کے پاس آئی ایم ایف بیل آؤٹ پیکیج پر قائل کرنے کے لیے وقت ختم ہورہا ہے۔
قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ میں بریفنگ دیتے ہوئے اسحٰق ڈار کا کہنا تھا کہ چین سے آج ایک ارب ڈالر آجائیں گے، چین کو جو ہم نے قرض واپس کیا وہ دوبارہ مل رہا ہے، چین کے ساتھ اس معاملے پر بات چیت مکمل ہوچکی ہے۔
انہوں نے کہا کہ بینک آف چائنا کے ساتھ بھی 30 کروڑ ڈالرز سے متعلق بات چیت چل رہی ہے، چین کے سواپ معاہدے کے تحت بھی ڈالرز آئیں گے۔
وزیر خزانہ نے کہا کہ بجٹ اسٹریٹجی پیپر میں تاخیر آئی ایم ایف کے ساتھ بات چیت میں تاخیر کی وجہ سے ہوئی، بجٹ میں آئی ٹی سیکٹر اور ایس ایم ایز پر توجہ دی گئی۔
انہوں نے کہا کہ آئندہ مالی سال کے لیے 3.5 فیصد شرح نمو حاصل کی جا سکتی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ الیکشن نہ بھی ہوتا تب بھی بجٹ ایسا ہی پیش کرتے۔
’ایف بی آر کا نئے مالی سال کا ہدف غیر حقیقی نہیں ہے‘
اسحٰق ڈار نے کہا کہ اس سال اوسط مہنگائی 29 فیصد ہے، سرکاری ملازمین سب سے زیادہ پسا ہوا طبقہ ہے، بجٹ میں پنشنرز کو بھی مہنگائی کے تناسب سے دیکھا گیا۔
انہوں نے کہا کہ آئندہ مالی سال کے لیے ایف بی آر کا ٹیکس ہدف سائنسی بنیادوں پر رکھا گیا ہے، ایف بی آر کا نئے مالی سال کا ہدف غیر حقیقی نہیں ہے۔
وفاقی وزیر کا کہنا تھا کہ مہنگائی اور شرح نمو کے حساب سے ٹیکس کا ٹارگٹ رکھا جاتا ہے، بجٹ میں 223 ارب روپے کے ٹیکس اقدامات کیے گئے۔
انہوں نے کہا کہ کراچی پورٹ پر کھڑے کنٹینرز کی کلیئرنس میں تاخیر پر چئیرمین ایف بی آر سے رپورٹ طلب کر لی ہے۔
وزیر خزانہ نے کہا کہ موجودہ ٹیکس دہندگان پر کوئی بوجھ نہیں ڈالا گیا، نئے ٹیکس دہندگان سے ٹیکس اکٹھا کرکے ہدف پورا کریں گے۔
انہوں نے کہا کہ یوریا کی اسمگلنگ روکنے کے لیے اقدامات کیے گئے ہیں، ڈالرز کی اسمگلنگ بھی اب شروع ہوچکی، افغانستان میں حکومت تبدیلی سے ڈالرز میں کمی ہوئی جس سے پاکستان سے ڈالر اسمگل ہوا۔
ان کا کہنا تھا کہ ڈالرز کی اسمگلنگ ابھی تک رکی نہیں بلکہ ڈالرز کی اسمگلنگ میں کمی ہوئی ہے، 20 لاکھ ڈالرز کی اسمگلنگ اور 5 ارب روپے کی اسمگل شدہ چینی پکڑی ہے۔
اسحٰق ڈار نے کہا کہ نان فائلر پر 0.6 فیصد ودہولڈنگ ٹیکس معیشت کو دستاویزی بنانے کے لیے لگایا گیا ہے۔
واضح رہے کہ گزشتہ روز اسحٰق ڈار نے سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ کے اجلاس میں آئی ایم ایف کے حوالے سے سخت لہجہ اپناتے ہوئے کہا تھا کہ مالیاتی فنڈ ہمارا وقت ضائع کر رہا ہے ، پاکستان کو بظاہر بلیک میل کیا جارہا ہے، ہمارے خلاف جیو پولیٹکس ہو رہی ہے کہ پاکستان ڈیفالٹ کر جائے، آئی ایم ایف چاہتا ہے کہ پاکستان سری لنکا بنے اور پھر مذاکرات کریں۔
انہوں نے اجلاس میں بریفنگ دیتے ہوئے کہا تھا کہ آئی ایم ایف کی خواہش ہے کہ ہم کسی شعبے میں بالکل ٹیکس استثنیٰ نہ دیں، بطور خود مختار ملک ہمیں اتنا حق تو ہونا چاہیے کہ کچھ ٹیکس چھوٹ دیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ٹیکس چھوٹ نہیں دیں گے تو شرح نمو کیسے بڑھے گی، ریونیو نہیں آئے گا تو ملک کیسے چلے گا۔
پاکستان، آئی ایم ایف پروگرام کے حوالے سے پرعزم ہے، وزارت خزانہ
دوسری جانب وزارت خزانہ کی جانب سے بیان کے مطابق وزارت نے پاکستان میں عالمی مالیاتی فنڈ کی ریزیڈنٹ نمائندہ ایستھر پیریز کے بیان کا جائزہ لیا ہے، پاکستان آئی ایم ایف پروگرام کے حوالے سے پرعزم ہے اور اس حوالے سے ہماری بات چیت بھی جاری ہے۔
وزارت نے کہا کہ پریس میں جاری بیان میں مخصوص امور کے بارے میں وضاحت سے پہلے بات چیت کے سیاق و سباق کو دیکھنا ضروری ہے، آئی ایم ایف کے ساتھ 9واں جائزہ فروری 2023 میں ہوا، حکومت پاکستان نے برق رفتاری سے تمام تکنیکی امور مکمل کر لیے تھے، واحد معاملہ بیرونی فنانسنگ سے متعلق تھا جو کہ ہمارا خیال ہے کہ وزیر اعظم شہباز شریف اور آئی ایم ایف کی منیجنگ ڈائریکٹرکے درمیان 19 مئی کو ہونے والی ٹیلی فونک بات چیت میں احسن طریقے سے حل ہوا۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ اگرچہ نئے مالی سال کا وفاقی بجٹ کبھی بھی 9 ویں جائزہ کا حصہ نہیں رہا، تاہم آئی ایم ایف کی منیجنگ ڈائریکٹر سے وزیر اعظم کے کمٹمنٹ کے مطابق وزارت خزنہ نے آئی ایم ایف کے مشن کے ساتھ بجٹ کے اعداد و شمار شیئر کیے، جبکہ بجٹ کے دوران بھی ہمارا آئی ایم ایف مشن کے ساتھ مسلسل رابطہ رہا۔
وزارت خزانہ کے بیان کے مطابق عالمی مالیاتی فنڈ کی ریزیڈنٹ نمائندہ ایستھر پیریز کی جانب سے جہاں تک ٹیکس کی بنیاد سے متعلق معاملہ ہے تو ایف بی آر نے جاری مالی سال کے پہلے 11 ماہ میں 11 لاکھ 61 ہزار نئے ٹیکس گزاروں کوشامل کیا ہے، ٹیکس گزاروں کی تعداد میں اضافے کی شرح 26.38 فیصد بنتی ہے، یہ ایک جاری مشق ہے اور یہ سلسلہ چلتا رہے گا۔
انہوں نے کہا کہ نان فائلرز کے لیے 50 ہزار روپے سے زائد کی رقوم نکلوانے پر 0.6 فیصد ودہولڈنگ ٹیکس اسی سمت میں ایک اور قدم ہے۔
وزارت خزانہ کے بیان کے مطابق بجٹ میں جن شعبہ جات کے لیے ٹیکس کی چھوٹ دی گئی ہے وہ معیشت کے حقیقی شعبہ جات ہیں جو نمو کے انجن کی حیثیت رکھتے ہیں، یہ شہریوں کوروزگار دلانے کا ایک پائیدار راستہ ہے، اس چھوٹ کا حجم بہت کم ہے۔
بیان میں کہا گیا کہ معاشرے کے معاشی طور پر کمزور طبقات کے لیے اقدامات صرف بینظیر انکم سپورٹ پروگرام (بی آئی ایس پی) سے استفادہ کرنے والوں تک محدود نہیں ہیں، اس بجٹ کاحجم 400 ارب سے 450 ارب کردیا گیا ہے، فروری 2023 میں یہ بجٹ 350 سے بڑھا کر 400 ارب کردیا گیا تھا۔
انہوں نے کہا کہ ملک میں غربت کی لکیر سے اوپر بھی لاکھوں لوگ موجود ہیں جو معاشی مسائل کا سامنا کر رہے ہیں، بجٹ میں یوٹیلیٹی اسٹورز کارپوریشن کے ذریعے 5 ضروری اشیا پر 35 ارب تک کی سبسڈی دی جارہی ہے، اس اسے استفادہ کرنے والوں کا اسکور 32 سے بڑھا کر 40 کردیا گیا ہے۔
بیان کے مطابق یہ سہولت بی آئی ایس پی سے استفادہ کرنے والوں کے لیے بھی دستیاب ہے، جہاں تک ایمنسٹی کا تعلق ہے تو واحد تبدیلی آئی ٹی آرڈیننس کے متعلقہ پرویژنز کے تحت قدر کو ڈالرائز کرنا ہے، یہ سہولت آئی ٹی آرڈیننس کے سیکشن 111 چار کے تحت پہلے سے موجود ہے۔ ایک کروڑ روپے کی کیپ 2016 میں متعارف کرائی گئی تھی۔ اس کیپ کو ایک لاکھ ڈالرکے مساوی روپوں کے ذریعے حل کیا گیا ہے۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ پاکستان کی حکومت، آئی ایم ایف پروگرام کے حوالے سے پرعزم ہے اور 9ویں جائزے کو مکمل کرنے میں گہری دلچسپی لے رہی ہے، اتحادی حکومت نے پہلے ہی سیاسی قیمت پر کئی مشکل فیصلے کیے ہیں، معاملے کے خوش اسلوبی سے حل کے لیے ہمارا آئی ایم ایف کے ساتھ مسلسل رابطہ ہے۔
یاد رہے کہ دو روز قبل عالمی مالیاتی فنڈ نے گزشتہ ہفتے حکومت کی جانب سے قومی اسمبلی میں پیش کیے جانے والے مالی سال 2024کے بجٹ کے حوالے سے کئی سوالات اٹھاتے ہوئے کہا تھا کہ قرض دہندہ پاکستان کے ساتھ اس مسودے کی منظوری سے قبل بجٹ کو بہتر بنانے پر کام کرنے کے لیے تیار ہے۔
بدھ کو رات گئے جاری ایک بیان میں آئی ایم ایف کی ریزیڈنٹ نمائندہ ایستھر روئز پیریز نے کہا کہ حکومت کی جانب سے بجٹ میں تجویز کردہ نئی ٹیکس ایمنسٹی اسکیم ایک ’نقصان دہ مثال‘ قائم کرتی ہے اور پروگرام کی شرائط کے خلاف ہے، بیان میں یہ واضح نہیں کیا گیا کہ فنڈ کس خاص اسکیم کے حوالے سے مسئلے کی نشاندہی کر رہا ہے۔
بیان میں یہ بھی نوٹ کیا گیا کہ مالی سال 2024 کے بجٹ کا مسودہ ٹیکس کی بنیاد کو زیادہ بہتر انداز میں وسیع کرنے کے موقع کو گنواتا ہے اور نئے ٹیکس اخراجات کی طویل فہرست ٹیکس کے نظام کی شفافیت کو مزید کم کرتی ہے اور بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کے وصول کنندگان اور ترقیاتی اخراجات کے لیے درکار وسائل کو کم کرتی ہے۔