میئر اور ڈپٹی میئر کے انتخابی عمل کو مسترد کرتے ہیں، حافظ نعیم الرحمٰن
امیر جماعت اسلامی کراچی اور میئر کے امیدوار حافظ نعیم الرحمٰن نے کہا ہے کہ میئر اور ڈپٹی میئر کے انتخابی عمل کو مسترد کرتے ہیں۔
خیال رہے کہ آج کراچی کے میئر کے انتخاب کے غیر سرکاری نتیجے کے مطابق پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے مرتضیٰ وہاب 173 ووٹ لینے میں کامیاب رہے، جبکہ جماعت اسلامی کے حافظ نعیم الرحمٰن دوسرے نمبر پر رہے۔
کراچی میں پریس کرتے ہوئے حافظ نعیم کا کہنا تھا کہ آج جس ڈھٹائی، دیدہ دلیری، طاقت کے زور پر کراچی کے عوام کے مینڈیٹ پر ڈاکا ڈالا گیا، اور جماعت اسلامی اور پی ٹی آئی جس نے مشترکہ طور پر میئر کا امیدوار کھڑا کیا تھا، 9 لاکھ سے زائد ووٹ لینے والی یہ پارٹیوں کو 3، سوا تین لاکھ ووٹ لینے والی جماعتوں نے آج اپنی طاقت، حکومتی جبر، الیکشن کمیشن سے ملی بھگت کے ذریعے، انسانوں کی منڈی لگا کر، انہیں لاپتا کر کے، انہیں اغوا کرکے اور جمہوریت کے اوپر شب خون مار کے اپنی مرضی کا نتیجہ حاصل کیا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ یہ افسوس ناک ہے، شرمناک ہے، قابل مذمت ہے، اگر آج یہ ہوتا کہ کسی بھی پارٹی کے نمبر زیادہ ہوتے اور وہ کامیاب ہو جاتا تو ہم بھی اتنا حوصلہ رکھتے ہیں کہ ہم مبارکباد بھی دیتے اور ہار بھی پہناتے، لیکن جب آپ عوام کے مینڈیٹ پر قبضہ کریں گے تو ہم اس پورے عمل کو مسترد کرتے ہیں، یہ ناقابل قبول ہے۔
حافظ نعیم الرحمٰن نے کہا کہ شہر کے لوگوں نے ہمیں ووٹ دیا اور آپ جانتے ہیں کہ جعلی حلقہ بندیاں کی گئیں، یہ ایک جماعت کو فائدہ پہنچانے والی حلقہ بندیاں تھیں، ہم نے اس چیلنج کو اس لیے قبول کیا تھا کہ یہ الیکشن کرا ہی نہیں رہے تھے، ہم نے کہا تھا کہ انتخابات ہونے چاہئیں ہم ان کو ان کی حلقہ بندیوں پر شکست دے دیں گے۔
انہوں نے کہا کہ ووٹر لسٹ درست نہیں تھی لیکن اس کے باوجود ہم نے مہم چلائی، کراچی کے لوگ جو ڈیولپمنٹ کے لیے ترسے ہوئے ہیں، تعمیر اور ترقی کے لیے، وہ کرپشن سے پاک نظام چاہتے ہیں کیونکہ کراچی کے لوگ ٹیکس دیتے ہیں تو صوبہ سندھ چلتا ہے پاکستان چلتا ہے، کراچی کے لوگ بھی یہ چاہتے ہیں کہ ہماری بھی سڑکیں بنیں ہمارے بھی پارک بنیں۔
امیر جماعت اسلامی کراچی نے کہا کہ اس تمنا پر لوگوں نے جماعت اسلامی کی تحریک کا ساتھ دیا، اور جب انتخاب آیا تو تمام تر ابہام کے باوجود لوگوں نے بڑی تعداد میں جماعت اسلامی کو ووٹ دیا، اس کے بعد ہمارے مینڈیٹ پر قبضہ کیا جانے لگا، ہماری جیتی ہوئی سیٹوں پر ہروایا جانے لگا، آر اوز کے ذریعے نتیجے بدلے، اور ہر چیز بالکل نوشتہ دیوار ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ پھر دوبارہ گنتی کے نام پر ڈاکے ڈالے گئے، الیکشن کمیشن گئے تو انہوں نے پیپلزپارٹی کا ساتھ دیا، پیپلزپارٹی کی اے ٹیم کا کردار ادا کرتا رہا، ہم متوجہ کرتے رہے، ہم ہائی کورٹس گئے، ہم سپریم کورٹ گئے ہوئے ہیں۔
حافظ نعیم الرحمٰن نے کہا کہ الحمد اللہ ہم نے مینڈیٹ کی حفاظت کا حق اداکیا ہے اور آج بھی میں اس بات کا اعلان کر رہا ہوں کہ چاہے میئر شپ اور ڈپٹی میئرشپ پر ڈاکا ڈالا جائے تب بھی، اور اگر یو سیز پر ڈاکا ڈال جائے تب بھی، ایک ایک ووٹ کی حفاظت کرنا میں اپنی ذمہ داری سمجھتا ہوں۔
ان کا کہنا تھا کہ ہم کراچی کے لوگوں کو اس ڈاکے سے بھی نجات دلائیں گے، کراچی کا حقیقی مینڈیٹ رکھنے والا میئر بنے گا، جماعت اسلامی کا میئر بنے گا، اس میئر شپ کو قبول نہیں کیا جائےگا، ہماری کسی سے لڑائی نہیں ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہماری لڑائی اس نظام سے ہے، ہماری لڑائی ان کی چوری سے ہے، ڈاکا ڈالنے سے ہے، الیکشن کمیشن کا قبضہ سیاست ہے، جو وہ پیپلزپارٹی کے ساتھ مل کر کر رہا ہے، ہماری لڑائی کراچی اور پاکستان کے حق میں ہے۔
امیر جماعت اسلامی کراچی نے کہا کہ ہم یہ لڑائی لڑیں گے، آج اگر انہوں نے مینڈیٹ پر قبضہ کرکے سمجھا ہے کہ جماعت اسلامی خاموش ہو جائے گی، اگر ان کے دماغوں میں یہ بات ہے کہ کوئی میئرشپ ہی ہمارے لیے کوئی بہت بڑی معراج ہے، آخری منزل ہے، تو ان کو یہ سمجھنا چاہیے کہ میئرشپ تو ایک نشان منزل ہے، منزل تو ہماری دور ہے۔
’ہم سڑکوں پر بھی پُرامن احتجاج کا حق رکھتے ہیں‘
ان کا کہنا تھا کہ ہمارے لوگ جدوجہد کو تیز تر کریں گے، ہم سڑکوں پر بھی پُرامن احتجاج کا حق رکھتے ہیں، ہم عدالتوں میں بھی جائیں گے۔
انہوں نے سوال اٹھایا کہ دنیا میں ایسا کہاں ہوتا ہے کہ ایک کونسل ہے جس میں تعداد کی بنیاد پر میئر اور ڈپٹی میئر کو بننا ہے، 192 ہمارے اور پی ٹی آئی کے، اور 173 پیپلزپارٹی، (ن) لیگ اور جے یو آئی (ف) کے، 173 والا جیت جائے اور 31 انسانوں کو غائب کر دیا جائے، 31 انسانوں کے لیے جب ہم الیکشن کمیشن میں درخواست دیں تو وہ سنوائی نہ کریں، آج جب یہاں پر کارروائی شروع ہوئی، ہم نے احتجاج کیا کہ ہمارے لوگ واپس لے کر آؤ، جنہیں اغوا کیا گیا ہے۔
حافظ نعیم الرحمٰن نے کہا کہ ہمیں نہیں معلوم کہ اس وقت وہ کس حال میں ہیں، وہ لاپتا ہیں، اغوا کیے گئے ہیں، مارا پیٹا گیا، جبراً ان سے ویڈیوز بنوائی گئی ہیں، یا خریدا گیا ہے، ہر صورت میں غیر قانونی کام ہوا ہے، غیر جمہوری، غیر آئینی کام ہوا ہے، اس اغوا کو قبول نہیں کیا جاسکتا، یہ اغوا مینڈیٹ یہ قبضہ مینڈیٹ ہم قبول نہیں کرسکتے۔
ان کا کہنا تھا کہ میں الیکشن کمیشن سے بھی کہتا ہوں کہ بہت ہو گیا، اگر اس نے اپنا کردار ادا نہیں کیا، ہمیں سب سے پہلے الیکشن کمیشن میں ہی جانا ہے، اس لیے یہ قانونی تقاضا ہے، اس کے بعد عدالت میں جائیں گے، میں نہیں سمجھتا کہ پاکستان میں عدلیہ کے پاس کوئی بھی ایسا قانون موجود ہے کہ وہ اس بنیادی جمہوری حق کو پامال کرکے کوئی نتیجہ ظاہر کریں گے، ان شا اللہ حق کی فتح ہوگی۔