• KHI: Asr 4:13pm Maghrib 5:49pm
  • LHR: Asr 3:27pm Maghrib 5:05pm
  • ISB: Asr 3:27pm Maghrib 5:05pm
  • KHI: Asr 4:13pm Maghrib 5:49pm
  • LHR: Asr 3:27pm Maghrib 5:05pm
  • ISB: Asr 3:27pm Maghrib 5:05pm

لاہور ہائی کورٹ نے پی ٹی آئی کے 72 اراکین اسمبلی کی بحالی کا فیصلہ معطل کردیا

شائع June 14, 2023
لاہور ہائی کورٹ کے ججوں نے جسٹس شاہد کریم کے حکم کو معطل کر دیا — فائل فوٹو: اے پی پی
لاہور ہائی کورٹ کے ججوں نے جسٹس شاہد کریم کے حکم کو معطل کر دیا — فائل فوٹو: اے پی پی

لاہور ہائی کورٹ نے پی ٹی آئی کے 72 اراکین اسمبلی کو ’بحال‘ کرنے کا سابقہ فیصلہ معطل کر دیا ہے جہاں ان اراکین کے استعفے قومی اسمبلی کے اسپیکر نے منظور کر لیے تھے اور انہیں بعد میں الیکشن کمیشن آف پاکستان نے ڈی نوٹیفائی کر دیا تھا۔

ڈان اخبار میں شائع رپورٹ کے مطابق جسٹس شاہد بلال حسن اور جسٹس شکیل احمد پر مشتمل دو رکنی بینچ نے یہ حکم منگل کو قومی اسمبلی کے سیکریٹری طاہر حسین کی جانب سے دائر انٹرا کورٹ اپیل پر دیا۔

ججوں نے جسٹس شاہد کریم کے حکم کو معطل کر دیا، جنہوں نے مئی میں الیکشن کمیشن کی جانب سے پی ٹی آئی کے 72 اراکین قومی اسمبلی کے ڈی نوٹیفکیشن کو معطل کر دیا تھا اور انہیں کہا تھا کہ وہ قومی اسمبلی کے اسپیکر کے سامنے ذاتی طور پر پیش ہوں تاکہ وہ استعفے واپس لیں۔

دو رکنی بینچ نے مشاہدہ کیا کہ انٹراکورٹ اپیل نے کچھ اہم نکات اٹھائے اور اپیل کنندہ کے وکیل کو ہدایت کی کہ وہ اسی طرح کے معاملات پر سپریم کورٹ اور اسلام آباد ہائی کورٹ میں زیر التوا درخواستوں کی نقول جمع کرائیں، عدالت نے 21 جون کو جواب بھی طلب کر لیا۔

بیرسٹر لامیا نیازی کے توسط سے دائر اپنی اپیل میں سیکریٹری قومی اسمبلی نے استدلال کیا تھا کہ سنگل رکنی بینچ کی طرف سے دیا گیا حکم غیر قانونی، صوابدیدی اور دائرہ اختیار کے بغیر ہونے کی وجہ سے کالعدم قرار دیا جا سکتا ہے۔

انہوں نے استدلال کیا کہ سنگل رکنی بینچ کے جج نے اراکین اسمبلی کی جانب سے درخواستوں کو برقرار رکھنے پر ابتدائی اعتراضات کا فیصلہ کیے بغیر حقائق پر مبنی تنازعات کے سوالات کا فیصلہ کیا۔

طاہر حسین نے کہا کہ سنگل رکنی بینچ کے جج نے اس موضوع پر حقائق اور قانون کو غلط پڑھنے کی بنیاد پر فیصلہ جاری کرنے کی غلطی کی۔

انہوں نے مزید کہا کہ اس کے علاوہ، اپیل کنندہ کو سنگل رکنی بینچ کے جج کی طرف سے سماعت کا مناسب موقع نہیں دیا گیا اور فیصلہ سنانے میں مناسب عمل کی پیروی نہیں کی گئی۔

انہوں نے کہا کہ ایک بار جب قومی اسمبلی کے اسپیکر مطمئن ہو گئے کہ قانون سازوں کے استعفے حقیقی اور رضاکارانہ ہیں اور پھر انہیں الیکشن کمیشن آف پاکستان کو بھجوا دیا گیا تو کوئی بھی عدالت اس وقت تک مداخلت نہیں کر سکتی جب تک کہ الیکشن کمیشن کچھ درست وجوہات کی بنا پر ان قانون سازوں کو ڈی نوٹیفائی کرنے سے انکار نہ کر دے۔

سیکریٹری قومی اسمبلی نے کہا کہ پی ٹی آئی کے اراکین اسمبلی کے استعفے واپس لیے جانے کے حوالے سے سنگل رکنی بینچ کے جج کے فیصلے کی قانونی طور پر کوئی بنیاد نہیں ہے۔

انہوں نے کہا کہ پوری کارروائی کے دوران سنگل رکنی بینچ کے جج کے ریمارکس اور کیس کے پس منظر کو تشکیل دینے والے حقائق بتاتے ہیں کہ جج بظاہر تعصب کا شکار تھے اور درخواست گزار اس حقیقت سے بخوبی واقف تھا کیونکہ اسے کیس کے نتائج پر شدید تحفظات تھے۔

انہوں نے عدالت سے استدعا کی کہ گزشتہ فیصلے کو ایک طرف رکھا جائے اور اپیل پر حتمی فیصلے تک جمود برقرار رکھا جائے، ممکنہ طور پر ڈویژن بینچ آئندہ ہفتے اپیل پر سماعت کرے گا۔

کارٹون

کارٹون : 23 دسمبر 2024
کارٹون : 22 دسمبر 2024