’دوطرفہ قرضوں کی ری اسٹرکچرنگ نہیں کی جارہی‘
مرکزی بینک کے گورنر جمیل احمد نے زری پالیسی کے اعلان کے بعد تجزیہ کاروں کو بریفنگ میں بتایا کہ اسٹیٹ بینک آف پاکستان دوطرفہ قرضوں کی ری اسٹرکچرنگ پر غور نہیں کر رہا۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق عارف حبیب لمیٹڈ کے ہیڈ آف ریسرچ طاہر عباس نے بتایا کہ اسٹیٹ بینک کو بیرونی قرضوں کی ری اسٹرکچرنگ کے حوالے سے کوئی آگہی نہیں ہے، اس کا مطلب ہے کہ حکومت نے ایسے کسی منصوبے پر کام ہی نہیں کیا ہے۔
وزیر خزانہ اسحٰق ڈار نے ہفتے کو بتایا تھا کہ حکومت دوطرفہ ممالک کے قرضوں کی ری اسٹرکچرنگ کے امکانات پر کام کر رہی ہے۔
اجلاس میں شریک کچھ تجزیہ کاروں نے کہا کہ وزیر خزانہ دوطرفہ قرضوں کی مدت میں توسیع اور رول اوور کا حوالہ دے رہے ہوں گے۔
طاہر عباس کا کہنا تھا کہ پاکستان نے صرف تین ممالک سے 9 ارب ڈالر (چین سے 4 ارب ڈالر، سعودی عرب سے 3 ارب ڈالر اور متحدہ عرب امارت سے 2 ارب ڈالر) کے قرض لے رکھے ہیں، ہر سال یہ رقم رول اوور ہو جاتی ہے اور حکومت اس کی توسیع کے لیے ان ممالک سے مذاکرات کرتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ قرضوں کی ادائیگی میں ممکنہ طور پر توسیع ہو سکتی ہے، ابھی ہر سال رول اوور ہوتا ہے، ملک ان حکومتوں سے 2 سے 3 سال کے لیے قرضوں میں توسیع کے حوالے سے مذاکرات کرسکتا ہے۔
پاکستان ان دوطرفہ ممالک کے قرضوں پر سود ادا کرتا ہے، لہٰذا ان کی مدت میں توسیع ہوسکتی ہے۔
طاہر عباس نے بتایا کہ توسیع سے یقینی طور پر حکومت کو گنجائش ملے گی، ایک ایسے وقت میں جب ڈیفالٹ سے بچنے کی کوششیں کی جارہی ہوں۔
پاکستان کی قرضوں اور سود کی ادائیگی کے لیے ہر سال 25 ارب ڈالر کی ادائیگی کرنا پڑے گی، جس میں سے 9 ارب ڈالر دوطرفہ ممالک سے جبکہ 5 ارب ڈالر بین الاقوامی اداروں مثلا عالمی بینک اور ایشیائی ترقیاتی بینک کے قرض شامل ہیں۔
تجزیہ کار نے بتایا کہ اس کے بعد 11 ارب ڈالر رہ جاتے ہیں، جو قابل انتظام رقم ہے کیونکہ ملک کو 28 ارب ڈالر کی ترسیلات زر موصول ہوتی ہیں۔