• KHI: Zuhr 12:31pm Asr 4:12pm
  • LHR: Zuhr 12:01pm Asr 3:27pm
  • ISB: Zuhr 12:07pm Asr 3:26pm
  • KHI: Zuhr 12:31pm Asr 4:12pm
  • LHR: Zuhr 12:01pm Asr 3:27pm
  • ISB: Zuhr 12:07pm Asr 3:26pm

’دوطرفہ قرضوں کی ری اسٹرکچرنگ نہیں کی جارہی‘

شائع June 13, 2023
اجلاس میں شریک کچھ تجزیہ کاروں نے کہا کہ وزیر خزانہ دوطرفہ قرضوں کی مدت میں توسیع اور رول اوور کا حوالہ دے رہے ہوں گے— فائل فوٹو: شٹر اسٹاک
اجلاس میں شریک کچھ تجزیہ کاروں نے کہا کہ وزیر خزانہ دوطرفہ قرضوں کی مدت میں توسیع اور رول اوور کا حوالہ دے رہے ہوں گے— فائل فوٹو: شٹر اسٹاک

مرکزی بینک کے گورنر جمیل احمد نے زری پالیسی کے اعلان کے بعد تجزیہ کاروں کو بریفنگ میں بتایا کہ اسٹیٹ بینک آف پاکستان دوطرفہ قرضوں کی ری اسٹرکچرنگ پر غور نہیں کر رہا۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق عارف حبیب لمیٹڈ کے ہیڈ آف ریسرچ طاہر عباس نے بتایا کہ اسٹیٹ بینک کو بیرونی قرضوں کی ری اسٹرکچرنگ کے حوالے سے کوئی آگہی نہیں ہے، اس کا مطلب ہے کہ حکومت نے ایسے کسی منصوبے پر کام ہی نہیں کیا ہے۔

وزیر خزانہ اسحٰق ڈار نے ہفتے کو بتایا تھا کہ حکومت دوطرفہ ممالک کے قرضوں کی ری اسٹرکچرنگ کے امکانات پر کام کر رہی ہے۔

اجلاس میں شریک کچھ تجزیہ کاروں نے کہا کہ وزیر خزانہ دوطرفہ قرضوں کی مدت میں توسیع اور رول اوور کا حوالہ دے رہے ہوں گے۔

طاہر عباس کا کہنا تھا کہ پاکستان نے صرف تین ممالک سے 9 ارب ڈالر (چین سے 4 ارب ڈالر، سعودی عرب سے 3 ارب ڈالر اور متحدہ عرب امارت سے 2 ارب ڈالر) کے قرض لے رکھے ہیں، ہر سال یہ رقم رول اوور ہو جاتی ہے اور حکومت اس کی توسیع کے لیے ان ممالک سے مذاکرات کرتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ قرضوں کی ادائیگی میں ممکنہ طور پر توسیع ہو سکتی ہے، ابھی ہر سال رول اوور ہوتا ہے، ملک ان حکومتوں سے 2 سے 3 سال کے لیے قرضوں میں توسیع کے حوالے سے مذاکرات کرسکتا ہے۔

پاکستان ان دوطرفہ ممالک کے قرضوں پر سود ادا کرتا ہے، لہٰذا ان کی مدت میں توسیع ہوسکتی ہے۔

طاہر عباس نے بتایا کہ توسیع سے یقینی طور پر حکومت کو گنجائش ملے گی، ایک ایسے وقت میں جب ڈیفالٹ سے بچنے کی کوششیں کی جارہی ہوں۔

پاکستان کی قرضوں اور سود کی ادائیگی کے لیے ہر سال 25 ارب ڈالر کی ادائیگی کرنا پڑے گی، جس میں سے 9 ارب ڈالر دوطرفہ ممالک سے جبکہ 5 ارب ڈالر بین الاقوامی اداروں مثلا عالمی بینک اور ایشیائی ترقیاتی بینک کے قرض شامل ہیں۔

تجزیہ کار نے بتایا کہ اس کے بعد 11 ارب ڈالر رہ جاتے ہیں، جو قابل انتظام رقم ہے کیونکہ ملک کو 28 ارب ڈالر کی ترسیلات زر موصول ہوتی ہیں۔

کارٹون

کارٹون : 22 دسمبر 2024
کارٹون : 21 دسمبر 2024