اسٹیٹ بینک کا شرح سود 21 فیصد پر برقرار رکھنے کا اعلان
اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے کہا ہے کہ مانیٹری پالیسی کمیٹی نے شرح سود کا جائزہ لینے کے بعد اگلے دو ماہ تک شرح سود بغیر کسی تبدیلی کے 21 فیصد تک برقرار رکھنے کا اعلان کیا ہے۔
اسٹیٹ بینک کی طرف سے ایسا اعلان بینک کی مانیٹری پالیسی کمیٹی کے اجلاس کے بعد کیا گیا ہے۔
مانیٹری پالیسی کمیٹی نے نشاندہی کی کہ مئی 2023 میں افراط زر اپنے عروج پر رہی اور کمزور طلب، صارفین اور کاروباری اداروں کی افراط زر کی توقعات میں آسانی، عالمی اجناس کی قیمتوں میں کمی کا رجحان اس تشخیص کے پیچھے اہم عوامل ہیں۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ مانیٹری پالیسی کمیٹی نے توقع ظاہر کی کہ سخت مانیٹری پالیسی، بے یقینی اور بیرونی کھاتوں پر مسلسل دباؤ کے درمیان ملکی طلب میں کمی رہے گی۔
اسٹیٹ بینک کے بیان میں کہا گیا ہے کہ اس پس منظر میں اور گرتے ہوئے رجحان کو دیکھتے ہوئے مانیٹری پالیسی کمیٹی کا خیال ہے کہ مئی 2023 میں افراط زر کی شرح 38 فیصد تک پہنچ گئی ہے اور کسی بھی غیر متوقع پیش رفت کو چھوڑ کر جون کے بعد سے اس میں کمی آنا شروع ہو جائے گی۔
کمیٹی نے نشاندہی کی کہ گزشتہ اجلاس کے بعد سے متعدد اہم پیش رفت ہو چکی ہیں۔
بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ ان میں سے پہلی پیش رفت یہ ہے کہ عارضی قومی عشاریے کے تخمینوں سے ظاہر ہے کہ مالی سال 23 کے دوران قومی پیداوار میں نمایاں کمی ہوئی ہے۔
مزید کہا گیا ہے کہ دوسری پیش رفت یہ ہے کہ کرنٹ اکاؤنٹ مارچ اور اپریل 2023 میں بیک ٹو بیک سرپلس ریکارڈ رہا جس سے زرمبادلہ کے ذخائر پر دباؤ کچھ کم ہوا۔
پریس ریلیز میں بتایا گیا ہے کہ تیسری پیش رفت یہ ہے کہ حکومت نے 9 جون کو مالی سال 2024 کا بجٹ پیش کیا تھا جس میں مالی سال 2023 کے نظرثانی شدہ تخمینوں کے خلاف قدرے اعداد و شمار والے مالی مؤقف کا تصور کیا گیا ہے۔
پریس ریلیز کے مطابق چوتھی پیش رفت یہ ہے کہ حال ہی میں عالمی اجناس کی قیمتوں میں کمی اور مالی شرائط میں نرمی آئی ہے اور توقع ہے کہ قریب مدت تک وہ اسی طرح برقرار رہیں گی۔
پریس ریلیز کے مطابق توازن پر مانیٹری پالیسی کمیٹی مستقبل کی بنیاد پر مثبت حقیقی شرح سود کے ساتھ موجودہ مالیاتی پالیسی کو دیکھ رہا ہے جو کہ افراط زر کی توقعات کو لنگر انداز کرنے اور درمیانی مدت کے ہدف میں افراط زر کو کم کرنے کے لیے مناسب ہے۔
پریس ریلیز میں مزید کہا گیا ہے کہ مانیٹری پالیسی کمیٹی نے زور دیا کہ یہ آؤٹ لک موجودہ ملکی بے یقینی اور بیرونی خطرات کو مؤثر طریقے سے حل کرنے پر بھی منحصر ہے۔
کمیٹی نے نشاندہی کی کہ حقیقی ملکی ترقی میں بڑی تبدیلی کئی منفی مقامی اور بیرونی عوامل کی وجہ سے صنعت کی قدر میں اضافے میں نمایاں کمی سے آئی جبکہ سروسز کے شعبے نے مالی سال 20 کے کورونا سے متاثر ہونے کے بعد سب سے سست رفتاری سے ترقی کی ہے۔
پریس ریلیز میں مزید کہا گیا ہے کہ زرعی شعبے میں گزشتہ برس کے مقابلے ترقی کی رفتار کم تھی لیکن سیلاب کے بعد تخمینہ کی گئی ترقی سے بہتر ہوئی ہے۔
اسٹیٹ بینک کی طرف سے جارہ کردہ بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ مانیٹری پالیسی کمیٹی نے کہا کہ اقتصادی سرگرمیوں میں سست روی ہائی فریکوئنسی اشاریوں کے رجحانات خاص طور پر آٹو، پی او ایل اور مقامی سیمنٹ کی فروخت کے حجم میں دوہرے ہندسوں میں کمی اور رواں مالی سال کے دوران بڑے پیمانے پر مینوفیکچرنگ میں سکڑاؤ سے منسلک ہے۔
مانیٹری پالیسی کمیٹی نے نشاندہی کی کہ ان رجحانات کی سخت پالیسی کے اثرات کی وجہ سے قریبی مدت میں جاری رہنے کی توقع تھی۔
پریس ریلیز میں کہا گیا ہے کہ دوسری طرف موسم میں کوئی خراب تبدیلی نہ ہونے سے رواں مالی سال میں زرعی شعبے میں بہتری کارکردگی کا امکان ہے۔
مزید کہا گیا ہے کہ کرنٹ اکاؤنٹ خسارے کو کم کرنے سے انٹربینک ایسکچینج ریٹ اور زر مبادلہ کے ذخائر پر دباؤ پڑا۔
اسٹیٹ بینک کی پریس ریلیز میں کہا گیا کہ قرضوں کی ادائگیوں اور کم سرمایہ کاری سے زر مبادلہ کے ذخائر پر دباؤ جاری رہا ہے۔
مالیاتی کمیٹی نے مؤقف اختیار کیا کہ مجموعی مالیاتی خسارے کا ہدف مالی سال 2023 کے تخمینہ سے نمایاں طور پر مختلف نہیں ہے۔
پریس ریلیز میں کہا گیا ہے کہ مانیٹری پالیسی کمیٹی کو توقع ہے کہ طلب کے دباؤ میں کمی اور افراط زر کی توقعات میں نرمی، عالمی اجناس کی قیمتوں میں اعتدال سے جون 2023 کے بعد سے افراط زر کو کم کرنے میں مدد ملے گی۔
پریس ریلیز میں کہا گیا ہے کہ اس حوالے سے مانیٹری پالیسی کمیٹی کا کہنا ہے کہ مالی سال 2025 تک افراط زر کو 5 سے 7 فیصد تک لانے کے لیے کرنٹ پالیسی ریٹ کو برقرار رکھنا لازمی ہے۔