مغربی ممالک کے خدشات نظر انداز، سعودی عرب، چین کے ساتھ تعاون بڑھانے کا خواہاں
سعودی وزیر توانائی نے کہا ہے کہ ان کا ملک چین کے ساتھ مقابلہ نہیں کرنا چاہتا بلکہ تعاون کرنا چاہتا ہے۔
غیر ملکی خبر رساں ادارے ’رائٹرز‘ کی رپورٹ کے مطابق سعودی وزیر نے سلطنت کے چین کے ساتھ بڑھتے تعلقات پر مغربی شکوک و شبہات کو نظر انداز کرتے ہوئے یہ بیان دیا۔
دنیا کے سب سے بڑے تیل برآمد کنندہ سعودی عرب کے دنیا کے سب سے بڑے توانائی کے صارف ملک چین کے ساتھ دوطرفہ تعلقات ہائیڈرو کاربن معاملے سے جڑے ہوئے ہیں لیکن ریاض اور بیجنگ کے درمیان سیاسی تعلقات کی گرمجوشی کے ساتھ سیکیورٹی اور حساس ٹیکنالوجی میں بھی تعاون گہرا ہوا ہے جو کہ امریکا کے لیے باعث تشویش ہے۔
عرب چین بزنس کانفرنس کے دوران دوطرفہ تعلقات پر تنقید کے بارے میں پوچھے جانے پر شہزادہ عبدالعزیز بن سلمان نے کہا کہ دراصل میں اس کو نظر انداز کرتا ہوں کیونکہ بطور کاروباری شخصیت اب آپ وہاں جائیں گے جہاں آپ کو مواقع ملیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ہمیں کسی ایسے انتخاب کا سامنا کرنے کی ضرورت نہیں جس میں کہا جائے کہ آپ ہمارے ساتھ یا دوسروں کے ساتھ ہیں۔
چینی صنعت کار اور سرمایہ کار اس کانفرنس میں شرکت کے لیے ریاض پہنچے جو کہ امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن کے دورے کے چند روز بعد ہو رہی ہے۔
مارچ میں سرکاری تیل کی بڑی کمپنی سعودی آرامکو نے چین میں اپنی اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری بڑھانے اور چین کے خام تیل فراہم کرنے والے اعلیٰ ملک کے طور پر اپنے درجے کو بڑھانے کے لیے دو بڑے معاہدوں کا اعلان کیا۔
دسمبر میں چینی صدر شی جن پنگ کے دورہ سعودی عرب کے بعد سے یہ سب سے بڑا اعلان تھا جہاں انہوں نے یوآن میں تیل کی تجارت پر زور دیا جو کہ ایسا اقدام ہے جس سے ڈالر کا غلبہ کمزور ہو گا۔
شہزادہ عبدالعزیز نے کہا کہ چین میں تیل کی طلب اب بھی بڑھ رہی ہے، یقیناً ہمیں اس طلب میں سے کچھ حصہ حاصل کرنا ہوگا، ہم چین سے مقابلہ کرنے کے بجائے چین کے ساتھ تعاون کرنا چاہیں گے۔
دونوں ممالک کے تعلقات نے سعودی عرب کے زیر تسلط خلیج تعاون کونسل (جی سی سی) اور چین کے درمیان آزاد تجارتی معاہدے کے لیے جاری مذاکرات کے کامیاب ہونے کے امکانات کو بھی بڑھایا ہے جو 2004 سے جاری ہیں۔
سعودی وزیر سرمایہ کاری خالد الفالح نے کہا کہ کسی بھی معاہدے کو ابھرتی خلیجی صنعتوں کا تحفظ کرنا ہو گا جب کہ یہ خطہ تیل کے علاوہ دیگر معاشی شعبوں کی طرف منتقل ہونا شروع کر رہا ہے۔
خالد الفالح نے کہا کہ ہمیں اپنی صنعتوں کو اشیا برآمد کرنے کے قابل اور بااختیار بنانے کی ضرورت ہے، لہذا ہم امید کرتے ہیں کہ وہ تمام ممالک جو ہمارے ساتھ آزاد تجارتی معاہدوں کے لیے بات چیت کر رہے ہیں وہ جانتے ہیں کہ ہمیں اپنی نئی، ابھرتی صنعتوں کو تحفظ فراہم کرنے کی ضرورت ہے،“ انہوں نے امید ظاہر کی کہ جلد ہی معاہدہ طے پا جائے گا۔