سابق برطانوی وزیراعظم بورس جانسن نے پارلیمنٹ کی رکنیت سے استعفیٰ دے دیا
سابق برطانوی وزیر اعظم بورس جانسن نے اپنے رویے کی تحقیقات کیے جانے کے خلاف گزشتہ روز احتجاجاً اچانک رکن پارلیمنٹ کی حیثیت سے استعفیٰ دے دیا۔
خبررساں ادارے ’رائٹرز‘ کی رپورٹ کے مطابق اس پیش رفت سے آئندہ برس متوقع عام انتخابات سے قبل حکمران جماعت ’کنزرویٹو پارٹی‘ میں گہری تقسیم واضح ہوگئی ہے۔
بورس جانسن ایک پارلیمانی انکوائری کے تحت زیرِ تفتیش ہیں جس میں یہ جانچ کی جارہی ہے کہ کیا انہوں نے کورونا وبا کے دوران لاک ڈاؤن پابندیوں کے خلاف ڈاؤننگ سٹریٹ میں منعقدہ پارٹی کے حوالے سے ہاؤس آف کامنز کو گمراہ کیا تھا؟
بورس جانسن کو انکوائری کمیٹی کی جانب سے ایک خفیہ خط موصول ہونے کے بعد انہوں نے اراکین پارلیمنٹ پر الزام عائد کیا کہ وہ اس کی تحقیقات کے لیے ’کینگرو کورٹ‘ کی طرح کام کر رہے ہیں اور ان کے سیاسی کیریئر کو ختم کرنے کے لیے پرعزم ہیں۔
بارس جانسن نے ایک بیان میں کہا کہ ’مجھے چند مٹھی بھر لوگوں نے زبردستی نکالا ہے، ان کے دعووں کی حمایت میں کوئی ثبوت موجود نہیں ہے‘۔
تحقیقات کے نتیجے میں الزام درست ثابت ہونے کی صورت میں پارلیمنٹ کی استحقاق کمیٹی کو بورس جانسن پر پارلیمنٹ میں داخلے کے لیے 10 روز سے زائد کی پابندی کی سفارش کا اختیار حاصل تھا، یہ پابندی 10 روز سے زائد عرصے تک جاری رہتی تو ان کے حلقے کے ووٹرز ان سے بطور اپنا نمائندہ برقرار رہنے کے لیے دوبارہ انتخاب لڑنے کا مطالبہ کر سکتے تھے۔
بورس جانسن نے کہا کہ وہ فی الوقت پارلیمنٹ سے جا رہے ہیں، انہوں نے مستقبل میں سیاست میں واپسی کا بھی امکان ظاہر کیا، تاہم سیاسی تجزیہ کاروں کی رائے ہے کہ بورس جانسن کا پارلیمنٹ سے استعفیٰ دینے کا فیصلہ ان کے 22 سالہ سیاسی کیرئیر کا اختتام بھی ہو سکتا ہے۔
انہوں نے کہا یہ محض واحد میری رائے نہیں ہے کہ یہ سب بریگزٹ کا بدلہ لینے اور بالآخر 2016 کے ریفرنڈم کے نتائج پلٹنے کے لیے کوششیں کی جارہی ہیں، مجھے ہٹانا پہلا ضروری پہلا قدم تھا اور مجھے یقین ہے کہ اس مںصوبے کو سرانجام دینے کے لیے ٹھوس کوشش کی گئی ہے۔
تحقیقاتی کمیٹی کی سربراہی لیبر پارٹی کے ایک سینیئر رکن پارلیمنٹ کر رہے ہیں لیکن کمیٹی میں شامل اراکین پارلیمنٹ کی اکثریت کا تعلق کنزرویٹو جماعت سے ہے۔
تحقیقاتی کمیٹی نے کہا کہ وہ اپنی انکوائری مکمل کرنے کے لیے پیر کو ملاقات کریں گے اور جلد ہی اپنی رپورٹ شائع کریں گے، کمیٹی کے ترجمان نے کہا کہ بورس جانسن نے اپنے استعفیٰ کے بیان سے پارلیمنٹ کے وقار کو مجروح کیا۔