’9 مئی کے واقعات میں ملوث ملزمان کا ٹرائل فوجی عدالتوں میں نہیں ہونا چاہیے‘
پاکستان بار کونسل نے مطالبہ کیا ہے کہ 9 مئی کے توڑ پھوڑ اور پرتشدد واقعات میں ملوث تمام کرداروں کا ٹرائل سول کورٹس میں ہونا چاہیے، کسی سویلین کا ٹرائل آرمی ایکٹ کے تحت فوجی عدالتوں میں نہیں ہونا چاہیے۔
پاکستان بار کونسل کے رہنماؤں کے اجلاس کے بعد سپریم کورٹ کے باہر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے وائس چیئرمین پاکستان بار کونسل ہارون الرشید نے کہا کہ تمام بارز نے اس بات پر اتفاق کیا کہ پارلیمنٹ کو آئین سازی کا مکمل اختیار ہے۔
انہوں نے کہا کہ پارلیمنٹ سے بنے قانون کو عدلیہ کالعدم یا حکم امتناع جاری کردیتی ہے۔
چیئرمین ایگزیکٹو کمیٹی حسن رضا پاشا نے کہا کہ کافی دنوں سے ہم وکلا قیادت کو اکٹھا کرنا چاہ رہے تھے، آج ہمارے ساتھ پاکستان بھر کی بارز کے نمائندے موجود ہیں، ہم نے کچھ قراردادیں متفقہ طور پر منظور کی ہیں، اجلاس میں 9 مئی کے واقعات کی شدید الفاظ میں مذمت کی گئی۔
انہوں نے کہا کہ متفقہ قرارداد میں کہا گیا کہ تمام ملوث کرداروں کا سول کورٹس میں ٹرائل ہونا چاہیے، کسی سویلین کا ٹرائل ملٹری کورٹ میں نہیں ہونا چاہیے۔
ان کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ ریویو اینڈ ججمنٹ ایکٹ وکلا کا دیرینہ مطالبہ تھا، حکومت سے مطالبہ ہے کہ وکلا پروٹیکشن ایکٹ کو فوری طور پر نافذ العمل ہونا چاہیے، سپریم کورٹ میں دو ججز کی سیٹیں خالی ہیں۔
حسن رضا پاشا کا کہنا تھا کہ ہمارا مطالبہ ہے کہ سپریم کورٹ کے دو ججز پر جوڈیشل کمیشن کا اجلاس بلایا جائے، پاکستان بار کونسل سمجھتی ہے کہ ججز کی تعیناتی سنیارٹی کی بنیاد پر ہونی چاہیے، خیبر پختونخوا سے سپریم کورٹ میں ججز نہیں لیے جاتے، خیبر پختونخوا سے ججز کی تقرری کرنی چاہیے۔
انہوں نے کہا کہ عدالت عظمیٰ نے سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجرز ایکٹ پر حکم امتناع جاری جاری کیا، پارلیمنٹ کی قانون سازی پر حکم امتناع کی مذمت کرتے ہیں، کل پاکستان بھر میں کوئٹہ میں سینئر وکیل کے قتل پر یوم سیاہ منایا جائے گا، تمام سیاسی جماعتوں کو مل کر مذاکرات کرنے چاہئیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ہمارا فورم مذاکرات کے لیے حاضر ہے، کسی کو سیاست سے باہر کرنےکا رویہ ترک کرنا چاہیے۔
واضح رہے کہ پاکستان بار کونسل کی جانب سے 9 مئی کے ملزمان کے خلاف فوجی عدالتوں میں ٹرائل کی مخالفت ایسے وقت میں کی گئی ہے جب گزشتہ ماہ وزیراعظم شہباز شریف نے پی ٹی آئی کے چیئرمین عمران خان کی گرفتاری کے بعد ہونے والی توڑ پھوڑ کو المناک قرار دیا تھا اور قومی سلامتی کمیٹی نے واقعات کی منصوبہ بندی کرنے اور اشتعال دلانے والوں کے خلاف آرمی ایکٹ کے تحت ٹرائل کی تائید کی تھی جو کہ قومی سلامتی کے امور کے لیے ملک کا اعلیٰ ترین فورم برائے رابطہ کاری ہے۔
قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس کے اعلامیے میں کہا گیا تھا کہ فورم نے آئین کے مطابق متعلقہ قوانین بشمول پاکستان آرمی ایکٹ اور آفیشل سیکریٹ ایکٹ کے تحت ٹرائل کے ذریعے شرپسندوں، منصوبہ سازوں، اشتعال دلانے والوں اور اُن کے سہولت کاروں کے خلاف مقدمات درج کرکے انصاف کے کٹہرے میں لانے کے فیصلے کی بھی تائید کی۔
20 مئی کو چیف آف آرمی اسٹاف جنرل عاصم منیر نے کہا تھا کہ ’9 مئی کے واقعات کے منصوبہ سازوں، اکسانے والوں، حملہ کرنے والوں اور سہولت کاروں کے خلاف آرمی ایکٹ اور آئین پاکستان کے تحت قواعد کے مطابق ٹرائل کے قانونی عمل کا آغاز ہوگیا ہے‘۔
بعد ازاں لاہور کی انسداد دہشت گردی عدالت نے جناح ہاؤس میں جلاؤ گھیراؤ اور توڑ پھوڑ کے مقدمے میں ملٹری ایکٹ کے تحت کارروائی کے لیے سابق رکن قومی اسمبلی میاں اکرم عثمان سمیت 16 اور راولپنڈی کی انسداد دہشت گردی عدالت نے 8 ملزمان کو پاک فوج کے کمانڈنگ افسر کے حوالے کرنےکا حکم دے دیا تھا۔