زیر سماعت کیس کے ٹکرز نہ نشر کیے جائیں، جسٹس محسن اختر کیانی کا میڈیا کو انتباہ
اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس محسن اختر کیانی نے اپنے پاس زیر سماعت کیس کا تبادلہ کیے جانے کی درخواست سے چند لمحے قبل ٹیلی ویژن چینلز کو اپنے ریمارکس کا حوالہ دینے سے روک دیا۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق فاضل جج نے عمران خان کے سابق معاون شہزاد اکبر کے بھائی مراد اکبر کی بازیابی کے لیے دائر درخواست پر سماعت کی۔
گزشتہ سماعت کے دوران جج نے حکام بالخصوص قانون نافذ کرنے والے اداروں کی سرزنش کی تھی اور خبردار کیا تھا کہ اگر لاپتا شخص بازیاب نہ ہوا تو وزیراعظم کو طلب کیا جا سکتا ہے۔
جج بظاہر اس بات پر ناخوش تھے کہ ان کے ریمارکس کو میڈیا پر کس طرح رپورٹ کیا گیا۔
جسٹس محسن اختر کیانی نے ٹیلی ویژن چینلز کو اپنے ریمارکس کو ٹکرز(چینل پر چلنے والی پٹی) کی شکل میں نشر کرنے اور نیوز بلیٹن کے دوران ان کی تصویر دکھانے سے روک دیا، انہوں نے کہا کہ میڈیا صرف کارروائی کے بعد جاری کردہ حکم نامے کو رپورٹ کرے۔
انہوں نے خبردار کیا کہ عدم تعمیل پر پاکستان الیکٹرانک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی کی جانب سے جاری کردہ چینل کا لائسنس منسوخ کر دیا جائے گا۔
جج کے سخت ریمارکس کچھ وکلا کو ٹھیک نہیں لگے، جن کا کہنا تھا کہ چونکہ یہ کیس کھلی عدالت میں زیر سماعت ہے اس لیے میڈیا کو اسے رپورٹ کرنے کا حق ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اگر جج تفصیلات کو خفیہ رکھنا چاہتے ہیں تو قانون نے انہیں اختیار دیا ہے کہ وہ ان کیمرہ کارروائی کا حکم دیں۔
سماعت کے دوران درخواست گزار کے وکیل نے عدالت کے استفسار پر کہا کہ مراد اکبر کے بھائی کو ایک کیس کا سامنا ہے اور وہ گزشتہ سال حکومت کی تبدیلی کے بعد برطانیہ چلے گئے تھے۔
جسٹس محسن اختر کیانی نے سوال کیا کہ کیا پولیس نے برطانیہ میں مفرور تمام افراد کے لواحقین کو گرفتار کیا ہے؟
گزشتہ سماعت کے دوران طلب کیے جانے کے باوجود پنجاب رینجرز کے ڈائریکٹر جنرل عدالت میں پیش نہیں ہوئے اور ان کے بجائے لیفٹیننٹ کرنل کاشف، ڈی جی کی جانب سے پیش ہوئے۔
تاہم جج نے مشاہدہ کیا کہ چونکہ رینجرز نے کیس میں ملوث نہ ہونے کا دعویٰ کیا ہے اس لیے ان کی موجودگی کی ضرورت نہیں ہے۔
جسٹس محسن اختر کیانی نے اس کے بعد درخواست کو اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کو بھیج دیا تاکہ اسے کسی اور بینچ کے سامنے سماعت کے لیے مقرر کیا جائے۔
2 جون کو ہونے والی آخری سماعت کے دوران جسٹس محسن اختر کیانی نے سیکریٹری داخلہ کے علاوہ کیپیٹل پولیس اور رینجرز کے سربراہان کو طلب کیا تھا۔
حکومتی ردعمل سے ناراض جج نے ریمارکس دیے تھے کہ جن لوگوں نے مراد اکبر کو اغوا کیا وہ سی سی ٹی وی فوٹیج میں دیکھے جا سکتے ہیں۔
انہوں نے کہا تھا کہ یہ پہلو ’بنیادی طور پر اس بات کی عکاسی کرتا ہے کہ اسلام آباد میں کوئی منظم گینگ کام کر رہا ہے، جو قانون نافذ کرنے والے اداروں کی سرکاری وردی پہن کر مجرمانہ سرگرمیوں میں مصروف ہے۔‘
انہوں نے کروڑوں روپے کے سیف سٹی پراجیکٹ پر بھی برہمی کا اظہار کرتے ہوئے اسے ’بیکار‘ قرار دیا تھا اور ریمارکس دیے تھے کہ بعض حلقے لوگوں کی ’ذاتی ویڈیوز‘ بنانے اور اپ لوڈ کرنے کے لیے کیمرے استعمال کررہے ہیں لیکن چوروں اور ڈاکوؤں کے خلاف کارروائی نہیں کررہے۔
مراد اکبر کے بھائی شہزاد اکبر گزشتہ چند ہفتوں سے قومی احتساب بیورو کے زیر تفتیش القادر ٹرسٹ کیس میں مبینہ طور پر ملوث ہونے کی وجہ سے سرخیوں میں ہیں۔
شالیمار تھانے میں درج ایف آئی آر کے مطابق مراد اکبر کو اسلام آباد کے سیکٹر ایف 10-4 میں ان کے گھر سے ’اغوا‘ کیا گیا تھا۔
ایف آئی آرمیں کہا گیا کہ 28 مئی کو اسلام آباد پولیس اور رینجرز کی وردیوں میں ملبوس اور کچھ سول ڈریس میں ملبوس افراد ان کے گھر میں گھسے اور انہیں لے کر چلے گئے، پولیس، رینجرز اور محکمہ انسداد دہشت گردی نےاس کارروائی میں ملوث ہونے کی تردید کی ہے۔