گوانتانامو جیل سے رہا کیے گئے پاکستانی قیدیوں سے متعلق رپورٹ طلب
سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے انسانی حقوق نے وزارت خارجہ سے بیرون ملک پاکستانی قیدیوں کی تفصیلات طلب کر لیں۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق جن قیدیوں کی معلومات طلب کی گئیں ہیں ان میں چار وہ قیدی بھی شامل ہیں جو گوانتانامو جیل میں تھے اور ان کی رہائی کی رپورٹ تاریخ وار تفصیلات بھی مانگی گئی ہیں۔
قائمہ کمیٹی کو بتایا گیا کہ دو زیر حراست افراد (ربانی برادران) اور ماجد خان کو فروری 2023 میں رہا کیا گیا تھا، ربانی برادران کو آزاد شہری کے طور پر پاکستان واپس بھیجا گیا تھا۔
پاکستان میں صحت کے شعبے میں کام کرنے والی امریکی این جی او میں پاکستانی خواتین کو ہراساں کیے جانے پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کمیٹٰی اراکین نے ریمارکس دیے کہ اگر اس طرح کے واقعات امریکا میں ہوتے تو خاموشی اختیار نہ کی جاتی۔
قائمہ کمیٹی نے وزارت داخلہ اور وزارت اقتصادی امور سے سفارش کی کہ تمام نجی اور سرکاری ادارے انٹرنل ہراسمنٹ کمیٹی تشکیل دیں۔
قائمہ کمیٹی کا اجلاس سینیٹر ولید اقبال کی زیر صدارت پارلیمنٹ ہاؤس میں ہوا، اس میں سینیٹر سید وقار مہدی، عابدہ عظیم، فلک ناز چترالی، ڈاکٹر ہمایوں اور سینیٹر سیمی ایزدی نے شرکت کی، اجلاس میں وفاقی سیکریٹری برائے انسانی حقوق، وزارت خارجہ کے حکام اور دیگر متعلقہ حکام نے بھی شرکت کی۔
وزارت خارجہ کے حکام نے قائمہ کمیٹی کو بتایا کہ گوانتانامو جیل میں قید ایک قیدی 24 فروری 2023 کو پاکستان پہنچا تھا اور کراچی میں رہائش پذیر تھا۔
سینیٹر سیمی ایزدی نے کہا کہ وہ 21 سال بغیر کسی الزام کے جیل میں رہا، سینیٹر ہمایوں مہمند نے کہا کہ یہ شرم کی بات ہے کہ جب تک سینیٹر نے یہ مسئلہ نہیں اٹھایا حکومت نے بھی اپنے شہریوں کو بے یار و مدد گار چھوڑ دیا اور کسی نے اس کے بارے میں دریافت نہیں کیا، سینیٹر مشاہد حسین سید نے کہا کہ 2008 میں وہ ایک وفد لے کر امریکا گئے اور عافیہ صدیقی سے ملنے گئے، اس بات پر بھی روشنی ڈالی گئی کہ عافیہ صدیقی کیس میں وکیل کے لیے حکومت کی جانب سے 12 لاکھ ڈالر خرچ کیے گئے۔
سینیٹر وقار مہدی نے کہا کہ ربانی برادران کو کمیٹی میں بلا کر ان کی روداد سنی جائے، قائمہ کمیٹی کو بتایا گیا کہ ماجد خان پاکستان نہیں آئے، وہ 19 سال تک قید رہے جو اب رہا ہو چکے لیکن وہ پاکستان واپس نہیں آئے۔ وزارت خارجہ کے حکام نے کمیٹی کو بتایا کہ امریکی سفارت خانے نے اس بات کو بھی اجاگر کیا کہ گوانتاناموبے جیل میں اب کوئی پاکستانی شہری نہیں ہے، سینیٹر کی جانب سے سوال کیا گیا کہ کراچی میں گرفتار ہونے والے خالد شیخ محمد کی شہریت کیا ہے؟
مشاہد حسین سیدنے کہا کہ پاکستان نے کبھی بھی نارتھ اٹلانٹک ٹریٹی آرگنائزیشن (نیٹو) سے جنگ کے نتیجے میں جانی نقصان کے معاوضے کا مطالبہ نہیں کیا۔
ایک این جی او کی خواتین ملازمین کو جنسی طور پر ہراساں کیے جانے کے معاملے پر غور کیا گیا، کمیٹی کے چیئرمین ولید اقبال نے کہا کہ پاکستان میں خواتین کو کام کی جگہ پر ہراسانی سے سے بچانے کا قانون 2010 سے نافذ ہے، این جی او کی کئی خواتین ملازمین نے جنسی طور پر ہراساں کیے جانے کی شکایت کی تھی، اب تک پانچ خواتین نے این جی او کے خلاف تحریری شکایت درج کرائی، کمیٹی کو پتا چلا ہے کہ اس این جی او میں پانچ سات سال سے ہراساں کیا جا رہا تھا اور انتظامیہ کو کی گئی شکایتیں بے سود تھیں۔
پاکستان میں این جی او کے سربراہ نے کمیٹی کے سامنے اپنا مؤقف پیش کرتے ہوئے کہا کہ ہراسانی سے متعلق کمیٹی قائم کردی ہے، یہ مشاہدہ کیا گیا کہ کمیٹی نہ بنانا ہراسمنٹ ایکٹ کی خلاف ورزی ہے۔
قائمہ کمیٹی نے 9 مئی کے واقعات کی مذمت کی قرارداد منظور کی۔
قرارداد میں کہا گیا کہ کمیٹی 9 مئی کو فوجی اور سویلین تنصیبات پر حملوں کی مذمت کرتی ہے، اس میں مزید روشنی ڈالی گئی کہ مضبوط دفاعی ادارے مضبوط جمہوری نظام کا حصہ ہیں اور پر تشدد کارروائیوں میں ملوث افراد کے خلاف کارروائی ہونی چاہیے، اس عزم کا اظہار کیا گیا کہ عالمی معاہدوں کے مطابق ان لوگوں کو شفاف ٹرائل کا حق دیا جائے۔