صوبائی حکومت واجبات کی ادائیگی میں تاحال ناکام، پشاور بی آر ٹی بند ہونے کے قریب
صوبائی حکومت کی جانب سے پبلک ٹرانسپورٹ سسٹم کے مختلف شعبوں کا انتظام کرنے والی پانچ نجی کمپنیوں کو تقریباً ایک ارب روپے کے واجبات ادا کرنے میں ناکامی کی وجہ سے ٹرانزٹ بڑے پیمانے پر متاثر ہوا ہے۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق ڈائیوو پاکستان، جو صوبائی دارالحکومت کے 3 لاکھ مسافروں کے لیے بی آر ٹی کی 244 بسوں کا بیڑا چلاتی ہے، نے کہا کہ حکومت کی جانب سے اسے قابل ادائیگی رقم گزشتہ ماہ کے 45 کروڑ روپے سے بڑھ 75 کروڑ روپے تک پہنچ چکی ہے۔
اس کے علاوہ چار دیگر کمپنیاں بھی اپنی خدمات کے عوض حکومت سے 30 کروڑ روپے کا مطالبہ کر رہی ہیں۔
یکم جون کو ڈائیوو انتظامیہ نے ایک بار پھر صوبائی حکومت سے واجبات کی ادائیگی کے لیے درخواست کی اور کہا کہ وہ ناکافی فنڈز کی وجہ سے بس سروس چلانے کے قابل نہیں رہے گی۔
اپنے واجبات کی کل رقم 75 کروڑ 40 لاکھ روپے بتاتے ہوئے کمپنی نے خبردار کیا کہ وہ کسی بھی وقت کام بند کر دے گی کیونکہ ’رقم کی عدم ادائیگی نے اس پر شدید مالی دباؤ ڈالا ہے‘۔
ڈائیوو نے پہلے 27 اپریل، پھر 17 مئی اور اس کے بعد 23 مئی کو تین مواقع پر حکومت سے مسئلہ حل کرنے کو کہا تھا۔
23 مئی کو اس نے نگراں وزیر اعلیٰ محمد اعظم خان سے درخواست کی کہ وہ واجبات کے معاملے کو حل کرنے کے لیے مداخلت کریں۔
کمپنی کے حالیہ خط میں نگران وزیراعلیٰ کو مخاطب کر کے کہا گیا ہے کہ ’ انتہائی ضروری نوعیت کے معاملے جاری رکھتے ہوئے ان کے نوٹس میں انتہائی اہمیت کا ایک خطرناک مسئلہ لا جارہا ہے کپ ٹرانس پشاور، کے پی اربن موبلٹی اتھارٹی کا ایک ذیلی اور صوبے میں بڑے پیمانے پر نقل و حمل کی نگرانی کے لیے ذمہ دار سرکاری ادارہ، طے شدہ معاہدے کی خلاف ورزی کر رہا ہے’۔
کمپنی نے کہا کہ بار بار کی درخواستوں اور یاد دہانیوں کے باوجود اس نے ہمیں واجب الادا ادائیگیاں جاری کرنے میں کوتاہی برتی ہے’۔
ڈائیوو نے مزید کہا کہ بقایا رقم فروری، مارچ، اپریل اور مئی کے مہینوں کے انوائس کی رقم سمیت بڑھ کر 75 کروڑ 40 لاکھ روپے تک پہنچ گئی ہے۔
خط میں کہا گیا ہے کہ واجبات کی عدم ادائیگی کے حوالے سے حکام کو شدید تحفظات سے آگاہ کرنے کے لیے متعدد میٹنگز اور خط و کتابت کی گئی لیکن افسوس کہ یہ تمام کوششیں رائیگاں گئیں کیونکہ اس مسئلے پر کوئی توجہ نہیں دی گئی۔
کمپنی کا کہنا تھا کہ ’یہ فنڈز ڈیزل، لبریکینٹس اور پرزوں کی خریداری کے ساتھ ساتھ بجلی اور تنخواہوں سے متعلق اخراجات کو پورا کرنے کے لیے معاہدے میں بیان کردہ ادائیگیوں کی بروقت ادائیگی ضروری ہے۔
ڈان سے بات کرتے ہوئے دو سینئر عہدیداروں نے خدشہ ظاہر کیا کہ واجبات کی ادائیگی میں مزید تاخیر سے بس سروس کی معطلی کا خدشہ ہے۔
ایک سینئر عہدیدار نے کہا کہ ’سروس کی بندش بالکل قریب ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ ٹرانسپشاور، حکومتی ملکیتی کمپنی، جو ماس ٹرانزٹ کے انتظام کی ذمہ دار ہے، اس کے اکاؤنٹس میں 45 کروڑ روپے سے زائد رقم تھی۔
عہدیدار نے بتایا کہ کمپنی نے محکمہ خزانہ سے مزید 40 کروڑ روپے مانگے ہیں، جو بہت جلد جاری ہونے کا امکان ہے۔
ایک اور عہدیدار نے شناخت نہ ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ معاہدے کے تحت، کمپنیوں کی جانب سے جمع کرائی گئیں تقریباً 90 فیصد رسیدوں کو 10 دنوں کے اندر کلیئر کرنا ہوگا۔
تاہم انہوں نے کہا کہ بغیر کسی معقول وجہ کے ادائیگیوں میں تاخیر ہو رہی ہے۔
ایک عہدیدار نے ڈان کو بتایا کہ کچھ ’بااثر‘ لوگ ڈائیوو کی بی آر ٹی لیز کو منسوخ کرنا چاہتے ہیں تاکہ اسے دوسری فرم کو دیا جائے۔
ڈان کے پاس دستیاب دستاویزات سے پتا چلتا ہے کہ کارپوریٹ گورننس رولز کی خلاف ورزی کرتے ہوئے صوبائی وزیر برائے ٹرانسپورٹ اور ماس ٹرانزٹ کو ٹرانس پشاور کے بورڈ آف ڈائریکٹرز کا چیئرمین بنا کر بورڈ کی تشکیل نو کی ایک سمری زیر گردش تھی۔
فٹ اینڈ پراپر پرسن کرائیٹیریا آف پبلک سیکٹر کمپنیز (کارپوریٹ گورننس رولز) 2013، مفادات کے تصادم میں کسی بھی ایسے فرد کو بورڈ کا ڈائریکٹر بننے سے روکتا ہے جو سیاسی عہدہ رکھتا ہو۔