ترقیاتی منصوبوں کیلئے 26 کھرب 60 ارب روپے کے بجٹ کی سفارش
سالانہ پلان کوآرڈینیشن کمیٹی (اے پی سی سی) نے تقریباً 26 کھرب 60 ارب روپے کے عارضی قومی ترقیاتی منصوبے کی سفارش کی ہے جس میں 950 ارب روپے کا وفاقی پبلک سیکٹر ڈیولپمٹ پروگرام بھی شامل ہے تاکہ آئندہ مالی سال ملک کی اقتصادی ترقی کی شرح کو ایک سے 3.5 فیصد تک لے جایا جا سکے جو رواں سال 0.3 فیصد کی پست ترین سطح پر آگئی۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق وزیر منصوبہ بندی احسن اقبال کے مطابق پنجاب اور خیبرپختونخوا میں نگران حکومتوں کی وجہ سے اس منصوبہ میں تبدیلی کا امکان ہے، جو 120 روز سے زیادہ مدت کے لیے رقم مختص نہیں کر سکتیں۔
میکرو اکنامک فریم ورک اور ترقیاتی منصوبے کی اب باضابطہ طور پر قومی اقتصادی کونسل (این ای سی) سے منظوری دی جائے گی، جوکہ میکرو اکنامک اور ڈیولپمنٹ ایجنڈے پر ملک کا سب سے بڑا فورم ہے اور اس کی سربراہی وزیراعظم کر رہے ہیں، قبل ازیں وزیر اعظم شہباز شریف کے دورہ ترکیہ کے باعث منصوبہ 6 جون تک ملتوی کر دیا گیا تھا۔
وفاقی پبلک سیکٹر ڈیولپمٹ پروگرام کو نجی شعبے کی جانب سے 150 ارب روپے کی فنڈنگ سے سپورٹ کیا جائے گا جس کے لیے وفاق نے 100 ارب روپے مختص کیے ہیں تاکہ وائبلٹی گیپ فنانسنگ (وی جی ایف) کو پورا کیا جاسکے۔
کُل 26 کھرب 60 ارب روپے کے ترقیاتی اخراجات میں وفاقی پروگرام کے 11 کھرب روپے، 150 ارب روپے کی نجی فنانسنگ اور تقریباً 15 کھرب 60 ارب روپے صوبائی سالانہ ترقیاتی منصوبے (اے ڈی پیز) شامل ہیں۔
پنجاب اور خیبرپختونخوا میں نگران حکومتوں نے پہلی سہ ماہی (جولائی تا اکتوبر) کے لیے بالترتیب صرف 426 ارب اور 268 ارب کے صوبائی اے ڈی پی تخمینے شیئر کیے ہیں۔
سندھ اور بلوچستان اپنے متعلقہ اے ڈی پیز کے لیے 617 ارب روپے اور 248 ارب روپے خرچ کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں، اے پی سی سی نے کہا کہ پورے سال کے صوبائی اے ڈی پیز 20 کھرب تک پہنچ جائیں گے۔
پبلک سیکٹر ڈیولپمٹ پروگرام کا ایک اہم جُز پارلیمنٹرینز کی اسکیم کے لیے مزید 90 ارب روپے مختص کرنا شامل ہے، جسے سسٹین ایبل ڈیولپمنٹ گولز اچیومنٹ پروگرام کہا جاتا ہے، اس کے لیے رواں برس کے بجٹ میں 70 ارب روپے مختص کیے گئے تھے، جسے بتدریج بڑھا کر 111 ارب روپے کردیا گیا۔
حکام نے بتایا کہ پبلک سیکٹر ڈیولپمٹ پروگرام میں مزید 50 ارب روپے کے بلاک مختص کیے گئے ہیں جو بعد میں ووٹروں کی حمایت حاصل کرنے کے لیے انتخابات سے قبل ’سسٹین ایبل ڈیولپمنٹ گولز‘ کے لیے بھی استعمال کیے جائیں گے۔
3.5 فیصد جی ڈی پی کی شرح نمو سروس سیکٹر میں 3.6 فیصد، زراعت میں 3.5 فیصد اور صنعت میں 3.4 فیصد ترقی پر مبنی ہے۔
برآمدات کا ہدف 30 ارب ڈالر مقرر کیا گیا ہے اور اس سال افراط زر کی اوسط 29.2 فیصد سے کم ہو کر آئندہ برس تقریباً 21 فیصد رہنے کا امکان ہے۔
سالانہ پلان کوآرڈینیشن کمیٹی کے اجلاس سے قبل وزیراعظم شہباز شریف نے ترقیاتی منصوبے کے اجلاس کی صدارت کی اور پلاننگ ڈویژن سے کہا کہ پبلک سیکٹر ڈیولپمنٹ پروگرام کی فنانسنگ کو 950 ارب روپے تک بڑھایا جائے۔
وزیر منصوبہ بندی احسن اقبال نے صحافیوں کو بتایا کہ پبلک سیکٹر ڈیولپمٹ پروگرام 5 برس پہلے ایک کھرب روپے تھی جو گزشتہ حکومت کے دور میں صرف 500 ارب روپے رہ گئی، جس نے پاک چین اقتصادی راہداری (سی پیک) کو سرد خانے میں ڈال دیا اور ملک کی ترقی کو ترجیح دینے میں ناکام رہا۔
ان کا کہنا تھا کہ انہوں نے یہ معاملہ وزیر اعظم کے سامنے اٹھایا، جنہوں نے ترقیاتی بجٹ میں اضافے پر اتفاق کیا اور وزارت خزانہ کو پی ایس ڈی پی کے لیے 950 ارب روپے مختص کرنے کی ہدایت کی، علاوہ ازیں ترقیاتی منصوبوں بالخصوص موٹرویز کے لیے مزید 150 ارب روپے کی فنانسنگ کا انتظام نجی شعبہ کرے گا۔
ایک سوال کے جواب میں احسن اقبال نے کہا کہ دونوں صوبوں میں نگران حکومتیں 120 دن کا بجٹ پیش کر سکتی ہیں اور انتخابات کے بعد نئی حکومتیں بقیہ 9 ماہ کے لیے ترجیحی اخراجات طے کریں گی۔
انہوں نے الزام عائد کیا کہ پچھلی حکومت نے 80 ارب ڈالر کی درآمدات کے ذریعے مصنوعی معاشی نمو دکھائی جبکہ ترقیاتی پروگرام ان کی ترجیحات میں شامل نہیں تھا، اس کے برعکس موجودہ حکومت کی ترجیح ان منصوبوں کو جلد مکمل کرنا ہے جن پر 70 فیصد پیش رفت ہو چکی ہے۔
ایک اور سوال کے جواب میں احسن اقبال نے سختی سے اس بات کی تردید کی کہ حکومت نے معاشی ترقی کی شرح کو زیادہ دکھانے کے لیے دباؤ کے حربے استعمال کیے، انہوں نے کہا کہا کہ نیشنل اکاؤنٹس کمیٹی کے اجلاس میں تاخیر اس لیے ہوئی کہ سیلاب کی تباہ کاریوں سے نمٹنے کے لیے درکار اخراجات کو شامل کرنا تھا۔
آزاد جموں و کشمیر اور گلگت بلتستان جیسے خصوصی علاقوں کے لیے معمولی کٹوتیوں کے علاوہ زیادہ تر شعبوں کے لیے مختص رقم کو عام طور پر کوئی تبدیلی نہیں کی گئی ہے یا موجودہ سال کے مقابلے میں برائے نام اضافہ کیا گیا ہے، دونوں شعبوں کو رواں برس ساڑھے 55 ارب روپے کے برعکس آئندہ برس 54 ارب 40 کروڑ روپے ملیں گے۔
آئی ایم ایف پروگرام کی وجہ سے وزارت خزانہ پبلک سیکٹر ڈیولپمٹ پروگرام کے لیے 700 ارب روپے سے زیادہ دینے کو تیار نہیں تھی، اگرچہ وزارت خزانہ نے سیاسی وجوہات کی بنا پر وزیر اعظم شہباز شریف کی ہدایت پر اسے 950 ارب روپے تک بڑھانے پر ہچکچاتے ہوئے اتفاق کرلیا لیکن سخت مالیاتی کنٹرول کے سبب اتنی ہی رقم جاری ہونے کی کی اجازت دیے جانے کا امکان نہیں ہے۔
سخت مالیاتی صورتحال کی وجہ سے ترجیح اُن بنیادی قومی منصوبوں کو دی گئی جو 70 سے 80 فیصد مالیاتی پیشرفت حاصل کر چکے ہیں اور جن کے پاس زیادہ سے زیادہ غیر ملکی فنڈنگ دستیاب ہے۔