بیرونِ ملک بذریعہ کریڈٹ کارڈ ادائیگی کیلئے انٹربینک کے نرخ پر ڈالرز استعمال کرنے کی اجازت
اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے بظاہر اوپن مارکیٹ میں ڈالر کی شرح کو کم کرنے کے لیے بین الاقوامی ادائیگی کے نظام میں کارڈ کی بنیاد پر سرحد پار لین دین کے لیے بینکوں کو انٹربینک مارکیٹ سے امریکی ڈالر حاصل کرنے کی اجازت دی ہے۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق اسٹیٹ بینک نے ایک سرکلر جاری کیا جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ ایک مختصر مدتی اقدام ہے کیونکہ بینکوں کو دی گئی اجازت 31 جولائی کو ختم ہو جائے گی۔
تاہم کرنسی کے ماہرین اور کرنسی کے کاروبار میں کام کرنے والے بینکرز نے کہا کہ خاص طور پر اوپن مارکیٹ میں ڈالر کی بلند شرح کی وجہ سے یہ ایک اہم اقدام ہے، اوپن مارکیٹ میں ڈالر کا ریٹ 30 سے 35 روپے فی ڈالر بڑھ گیا تھا۔
اسٹیٹ بینک کے سرکلر میں کہا گیا کہ ’یہ فیصلہ کیا گیا ہے کہ مجاز ڈیلرز کو آئی پی ایس (انٹرنیشنل پیمنٹ سسٹم) کے ساتھ کارڈ پر مبنی سرحد پار ٹرانزیکشنز کے تصفیہ کے لیے انٹربینک سے امریکی ڈالر خریدنے کی اجازت دی جائے‘۔
بینکس گزشتہ 17 سال سے ایکسچینج کمپنیوں سے ڈالر خرید رہے ہیں، جب کہ گزشتہ برس کئی بینکوں نے اپنے مالیاتی فائدے کے لیے ڈالر کے نرخوں میں مصنوعی اضافہ کیا تھا۔
اسٹیٹ بینک نے 17 مئی 2006 کو جاری کردہ سرکلر کے ذریعے بینکوں کو ایکسچینج کمپنیوں سے ڈالر خریدنے کی اجازت دی تھی۔
ایکسچینج کمپنیز ایسوسی ایشن آف پاکستان کے جنرل سیکرٹری ظفر پراچا نے کہا کہ ’اسٹیٹ بینک نے صحیح وقت پر درست فیصلہ کیا، اس سے اوپن مارکیٹ میں ڈالر کی قیمت 20 سے 25 روپے تک گر جائے گی اور انٹربینک اور اوپن مارکیٹ کے درمیان بڑے فرق کو کم کرنے میں بھی مدد ملے گی‘۔
اوپن مارکیٹ میں ڈالر کی کمی کے باعث امریکی کرنسی کی شرح میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے، نتیجتاً مجموعی کاروباری حجم میں نمایاں کمی آئی ہے، جو عام دن کے تجارتی حجم کے مقابلے میں صرف 20 فیصد تک رہ گئی ہے۔
ایکسچینج کمپنیوں نے کہا کہ گرے مارکیٹ میں ڈالر کی بڑھتی ہوئی شرحوں نے ان کے کاروبار کو بری طرح متاثر کیا ہے، جس کے نتیجے میں رقوم کی آمد میں کمی واقع ہوئی ہے۔
اس کے ساتھ ہی پاکستانی روپے کے مقابلے میں ڈالر کی متواتر قدر میں اضافے نے پاکستان میں غیر ملکی کرنسی ہولڈرز کی ان کے پاس موجود ذخیرے کو فروخت کرنے کی حوصلہ شکنی کی ہے، جس سے مارکیٹ ٹریڈنگ صرف 20 فیصد تک رہ گئی۔
ظفر پراچا نے مزید کہا کہ ’اس بقیہ 20 فیصد ٹریڈنگ میں سے 15 فیصد کا کاروبار بینکوں کے ساتھ تھا کیونکہ وہ کریڈٹ کارڈز کے لیے ایکسچینج کمپنیوں سے ڈالر خرید رہے تھے، اب یہ بھی چلا گیا ہے اور ہمارے پاس صرف 5 فیصد کاروبار رہ گیا ہے‘۔
انہوں نے شرح مبادلہ کو مستحکم کرنے کے لیے اسٹیٹ بینک کے تازہ ترین اقدام کا خیر مقدم کیا۔
تاہم، بینکرز نے اسے حیران کن اقدام قرار دیا اور اس کے اثرات کو سمجھنے اور اسے قبول کرنے کے لیے وقت مانگا۔
ایک سینئر بینکر نے کہا کہ جب کہ بینکوں کے پاس پہلے ہی ڈالرز کی کمی ہے اور اسٹیٹ بینک لیٹرز آف کریڈٹ کھولنے کی اجازت نہیں دیتا، بینکنگ مارکیٹ سے مزید ڈالر خریدنا سوالات کو جنم دیتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ بینک عام طور پر کریڈٹ کارڈز کے لیے 3 سے 4 کروڑ ڈالر فی ہفتہ خریدتے ہیں، جس کا مطلب ہے کہ بینکوں کو ہر ماہ کم از کم 12 کروڑ ڈالرز کی ضرورت ہوتی ہے۔
اس اقدام کے بعد بینکنگ سسٹم سے ڈالر کا اخراج زیادہ ہوگا جو اسٹیٹ بینک یا حکومت کو درکار نہیں، یہی وجہ ہے کہ تازہ ترین اقدام صرف دو ماہ کے لیے لاگو ہوگا۔
اسٹیٹ بینک کے سرکلر میں کہا گیا کہ ’یہ ہدایات 31 جولائی 2023 تک فوری طور پر لاگو ہیں، جب تک کہ دوسری صورت میں مطلع نہ کیا جائے‘۔
بینکرز کا خیال ہے کہ اوپن مارکیٹ میں ڈالر کی شرح پر قلیل مدتی اثر مثبت ہوگا لیکن وہ اس اثر کے طویل عرصے تک برقرار رہنے پر شک کا اظہار کرتے ہیں۔
انہوں نے یہ شک بھی ظاہر کیا کہ اسٹیٹ بینک کے اس فیصلے کے ذریعے کریڈٹ کارڈز کے اجرا پر قدغن لگائی جا سکتی ہے۔
انہوں نے مشاہدہ کیا کہ اوپن مارکیٹ میں ڈالر کی شرح میں کمی کی صورت میں بینکنگ چینل کے ذریعے ترسیلات زر میں اضافہ ہو سکتا ہے۔
مالی سال 23 کے دوران جولائی تا اپریل ترسیلات زر میں 13 فیصد کمی واقع ہوئی ہے، کرنسی ماہرین کا خیال ہے کہ یہ کمی گرے مارکیٹ میں ڈالر کے نرخوں میں نمایاں اضافے کی وجہ سے ہوئی ہے۔