• KHI: Fajr 5:34am Sunrise 6:53am
  • LHR: Fajr 5:12am Sunrise 6:37am
  • ISB: Fajr 5:19am Sunrise 6:46am
  • KHI: Fajr 5:34am Sunrise 6:53am
  • LHR: Fajr 5:12am Sunrise 6:37am
  • ISB: Fajr 5:19am Sunrise 6:46am

سابق پی ٹی آئی رہنماؤں سمیت پنجاب کی 24 سیاسی شخصیات پیپلزپارٹی میں شامل

شائع June 1, 2023
آصف زرداری نے پارٹی میں نئے آنے والوں کو پیپلزپارٹی کا جھنڈا پہنا کر خوش آمدید کہا—فوٹو: ٹوئٹر/پی پی پی
آصف زرداری نے پارٹی میں نئے آنے والوں کو پیپلزپارٹی کا جھنڈا پہنا کر خوش آمدید کہا—فوٹو: ٹوئٹر/پی پی پی

پنجاب سے تعلق رکھنے والے تقریباً 24 سیاسی رہنماؤں نے گزشتہ روز سابق صدر مملکت آصف علی زرداری سے ملاقات کے بعد پیپلزپارٹی میں شمولیت اختیار کرلی جن میں سے اکثر پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کا حصہ تھے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق متعدد سابق اراکین اسمبلی سمیت اِن 24 سیاسی رہنماؤں میں سے زیادہ تر کا تعلق جنوبی پنجاب سے ہے، ان میں سے 10 کا تعلق ضلع مظفر گڑھ سے جبکہ دیگر کا تعلق اوکاڑہ، بہاولپور، میانوالی، بہاولنگر اور رحیم یار خان سے ہے۔

آصف زرداری نے پارٹی میں نئے آنے والوں کو پیپلزپارٹی کا جھنڈا پہنا کر خوش آمدید کہا، اس موقع پر سابق وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی، نیئر حسین بخاری، سابق گورنر مخدوم احمد محمود اور سید حسن مرتضیٰ بھی موجود تھے۔

خیال رہے کہ مظفر گڑھ کو پیپلز پارٹی کا گڑھ سمجھا جاتا ہے کیونکہ سیاسی لحاظ سے بدترین دور میں بھی پیپلزپارٹی یہاں سے قومی اسمبلی کی 2 سے 3 نشستیں جیتتی رہی ہے۔

پیپلزپارٹی میں شمولیت اختیار کرنے والے ان 24 سیاسی رہنماؤں میں سے ایک نے بتایا کہ انہوں نے پہلے مسلم لیگ (ن) میں جگہ بنانے کی کوشش کی تاہم مسلم لیگ (ن) نے انہیں جگہ دینے سے انکار کر دیا کیونکہ وہ ان رہنماؤں کو کھونا نہیں چاہتی جو پی ٹی آئی کے دور اقتدار میں اسٹیبلشمنٹ کے دباؤ کے باوجود ثابت قدم رہے۔

نام ظاہر نہ کرنے کی درخواست کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اب ہم پیپلز پارٹی میں شامل ہوگئے ہیں کیونکہ ہر حلقے میں پیپلزپارٹی کا 8 ہزار سے 10 ہزار کا ووٹ بینک ہے اور ایسا لگتا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ بھی پیپلزپارٹی کی حمایت کر رہی ہے۔

جنوبی پنجاب سے تعلق رکھنے والے پیپلز پارٹی کے ایک رہنما نے بتایا کہ پارٹی میں شمولیت اختیار کرنے والے یہ لوگ آئندہ انتخابات میں شاید زیادہ مضبوط امیدوار نہ ہوں لیکن کم از کم پیپلز پارٹی اس بار بہتر کارکردگی دکھانے کے لیے ’معقول‘ لوگوں کو پارٹی میں شامل کرنے میں کامیاب رہی۔

یاد رہے کہ پیپلز پارٹی 2018 کے عام انتخابات میں پنجاب سے قومی اسمبلی کی صرف 6 نشستیں جیت سکی تھی، پارٹی رہنما نے مزید کہا کہ ملتان سے بھی بہت سی سیاسی شخصیات جلد ہی پارٹی میں شامل ہوں گی، ان لوگوں کے متعلق فیصلہ سابق وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی پارٹی کی سینیئر قیادت سے بات چیت کے بعد کریں گے۔

گزشتہ روز پیپلز پارٹی میں شمولیت اختیار کرنے والوں میں سابق رکن قومی اسمبلی قطب فرید کوریجہ، سابق رکن صوبائی اسمبلی رسول بخش جتوئی اور پی ٹی آئی کے ٹکٹ ہولڈر رئیس اکمل وارن، شمشیر مزاری، سید قاسم علی شمسی، فریحہ بتول، عبدالعزیز، پیر جعفر مزمل شاہ، اللہ وسایا چنو لغاری، علمدار عباس قریشی، ملک عبدالغفار آرائیں، عطا قریشی، یاسر عطا قریشی، سید جمیل شاہ، سید راشد شاہ، شیخ دلشاد احمد، سید بلال مصطفیٰ، سید تحسین نواز گردیزی، علی حیدر وٹو، سلمان ایوب موحل، علی حیدر وٹو، امیر حیدر وٹو، ایاز خان، امجد خان نیازی اور مزمل خان نیازی شامل ہیں۔

یوسف رضا گیلانی نے بلاول ہاؤس میں صحافیوں کو بتایا کہ پنجاب میں پیپلزپارٹی کی آئندہ سیاسی حکمت عملی اور نئے لوگوں کی شمولیت کے حوالے سے مشاورتی اجلاس جاری ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ہر سیاسی جماعت سے تعلق رکھنے والے لوگ پیپلز پارٹی میں شامل ہونے کے لیے آ رہے ہیں اور ان کا فیصلہ پارٹی میں اندرونی مذاکرات کے بعد کیا جا رہا ہے، کسی بھی امیدوار کو پارٹی میں شامل کرنے کا فیصلہ کرنے سے پہلے اس کے سیاسی پس منظر کو مدنظر رکھا جائے گا۔

ایک سوال کے جواب میں سابق وزیر اعظم نے کہا کہ پیپلز پارٹی مذاکرات پر یقین رکھتی ہے، حکومت کو پی ٹی آئی کے ساتھ مذاکرات شروع کرنے چاہیے۔

انہوں نے مزید کہا کہ مذاکرات میں اس وقت تک پیش رفت ہوتی رہی جب تک پی ٹی آئی نے یو ٹرن نہیں لیا اور اکتوبر کے بجائے 14 مئی کو ہی پنجاب میں انتخابات کے انعقاد پر اصرار کیا۔

یوسف رضا گیلانی نے کہا کہ ہم نے انہیں (پی ٹی آئی کو) متنبہ کیا تھا کہ پہلے انہوں نے پنجاب اور خیبرپختونخوا اسمبلی تحلیل کرکے غلطی کی اور وہ اب مذاکراتی عمل سے پیچھے ہٹ کر غلطی کر رہے ہیں۔

9 مئی کے حملوں کے بارے میں ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے یوسف گیلانی نے کہا کہ پوری دنیا اور حتیٰ کہ پی ٹی آئی نے بھی ان واقعات کی مذمت کی ہے، اب قانون ملزمان کے خلاف کارروائی کرے گا، فوجی تنصیبات پر حملہ خود ریاست پر حملہ کرنے کے مترادف ہے، سیاسی جماعتوں میں عسکری ونگز نہیں ہونے چاہئیں۔

انہوں نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ سیاسی استحکام معاشی استحکام کو یقینی بناتا ہے، اسی لیے ہم تمام سیاسی اسٹیک ہولڈرز کے درمیان مذاکرات پر زور دے رہے ہیں۔

کارٹون

کارٹون : 21 نومبر 2024
کارٹون : 20 نومبر 2024