معاشی چیلنجز سے نمٹنے کیلئے مخلصانہ کوششیں کی جارہی ہیں، وزیراعظم
ملک میں قیمتوں میں بے لگام اضافے کے درمیان وزیراعظم شہباز شریف نے دعویٰ کیا ہے کہ بدترین بحران ختم ہوچکا ہے اور ملک کو درپیش معاشی چیلنجز سے نمٹنے کے لیے مخلصانہ کوششیں کی جا رہی ہیں۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق ٹوئٹر پر ایک بیان میں انہوں نے کہا کہ معاشی چیلنجز کا سامنا ضرور ہے لیکن قیامت ہمارے سروں سے گزر چکی ہے، معیشت کو مضبوط بنانے اور بروقت پالیسی کے ذریعے چیلنجز سے نمٹنے کے لیے مخلصانہ کوششیں کی جا رہی ہیں۔
تاہم وزیر اعظم نے موجودہ معاشی بدحالی کا الزام سابق وزیر اعظم عمران خان اور ان کی حکومت کی پالیسیوں پر لگایا۔
وزیراعظم کا یہ بیان ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب ہر گزرتے دن کے ساتھ بڑھتی ہوئی اشیائے ضروریہ کی آسمان چھوتی قیمتوں پر حکومت اور مقامی انتظامیہ کا کوئی کنٹرول نہیں ہے۔
شہباز شریف نے کہا کہ ’ہم دوستوں اور شراکت داروں کے ساتھ مل کر مالیاتی خلا کو ختم کرنے کے لیے بھی کام کر رہے ہیں جہاں ضرورت ہو‘۔
انہوں نے زرمبادلہ بچانے کے لیے درآمدات پر انحصار کم کرنے کے لیے برآمدات بڑھانے کی ضرورت پر بھی زور دیا۔
وزیراعظم نے کہا کہ ’ہمارے لیے اصل چیلنج درآمدات پر انحصار اور افراط زر کو کم کرنا ہے، جو اس وقت ممکن ہے جب ہم برآمدات، سرمایہ کاری اور پیداوار کو معیشت کا انجن بنائیں، یہ وہ جگہ ہے جہاں ہماری کوششیں آگے بڑھ رہی ہیں‘۔
پی ٹی آئی حکومت کی معاشی پالیسیوں پر تنقید کرتے ہوئے شہباز شریف نے کہا کہ عمران خان کی معیشت اور اس کے کام کرنے والے وسیع ماحول کے بارے میں سمجھ بوجھ کافی محدود ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ ’وہ (عمران) معاشی چیلنجز کو بڑھانے میں اپنے کردار کو بھی آسانی سے بھول گئے‘۔
وزیراعظم نے کہا کہ آئی ایم ایف معاہدے کو ختم کرنے سے لے کر عمران خان نے ہمیشہ پاکستان کے دیوالیہ ہونے کی خواہش کی تھی۔
انہوں نے کہا کہ ’یہ ان کی نان اسٹاپ ایجی ٹیشن، لانگ مارچ اور دھرنوں کی سیاست کے سیاسی عدم استحکام کی وجہ سے معیشت پر پڑنے والے منفی اثرات کے علاوہ ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ یہاں تک کہ پاکستانی سرمایہ کار بھی عمران خان کی جانب سے جان بوجھ کر بنائے گئے ایسے غیر مستحکم ماحول میں اپنا سرمایہ لگانے سے کترائیں گے۔
شہباز شریف نے کہا کہ ’صرف 9 مئی کے خوفناک واقعات نے معیشت کو اربوں روپے کا نقصان پہنچایا اور یہ ان کے مذموم عزائم کی ناقابل تردید توثیق ہے، اس میں ان کرپشن کے کیسز کا ذکر نہیں ہے جس میں وہ ملوث ہیں‘۔