’عینک والا جن‘ کی ماسٹر کاپی بلاول ہاؤس بھیجی جاتی تھی، ’حامون جادوگر‘ کا انکشاف
ماضی میں بچوں کا مشہور مزاحیہ ڈراما ’عینک والا جن‘ میں حامون جادو گر کا کردار ادا کرنے والے حسیب پاشاکا کہنا ہے کہ 90 کی دہائی کے اس ڈرامے کی ماسٹر کاپی خصوصی طور پر بلاول ہاؤس بھیجی جاتی تھی، جہاں بلاول اور بختاور بھٹو یہ ڈراما شوق سے دیکھا کرتے تھے۔
محدود وسائل کے ساتھ پیش کیے جانے والے اس ڈرامے میں ’حامون جادوگر‘، ’زکوٹا‘ اور ’بل بتوڑی‘ کے گرد گھومتا اور اُن کا جادو دیکھ کر کچے ذہنوں میں گمان ہوتا کہ ضرور کہیں نہ کہیں حقیقی دنیا میں بھی طلسماتی دنیا آباد ہے یہ لوگ کہیں نہ کہیں ضرور موجود ہیں۔
عینک والا جن 90ء کی دہائی کے بچوں میں یکساں طور پر آج بھی مقبول ہے، مگر وقت بدلا، ہم نے بچپن کو خیرباد کہا اور دیکھتے ہی دیکھتے چینلز کی بھرمار نے ٹی وی اسکرینز پر قبضہ جمالیا، مگر ایسا کوئی ڈراما دوبارہ نظر نہیں آیا۔
اس ڈرامے میں حسیب پاشا کا کردار ’حامون جادوگر‘ آج بھی شائقین میں اتنا ہی پسند کیا جاتا ہے۔
حسیب پاشا نے ایک پوڈکاسٹ میں شرکت کی جہاں انہوں نے اپنے مالی مسائل اور ڈرامے کی مقبولیت کے حوالے سے بات کی۔
انہوں نے کہا کہ عمران خان نے جب فنڈ ریزنگ کا کام شروع کیا تو شوکت خانم کی تعمیر کے لیے لیڈی ڈیانا آئی تھیں، اس وقت ہم نے عینک والا جن کا ڈراما پرفارم کیا تھا، یہ ہمارے لیے فخر کا مقام تھا۔
انہوں نے انکشاف کیا کہ 90 کی دہائی میں ڈراما ’عینک والا جن‘ اتنا مشہور تھا کہ اس کی ماسٹر کاپی بلاول ہاؤس بھیجی جاتی تھی، اس وقت کی وزیراعظم بے نظیر کے بچے بلاول اور بختاور بھٹو چھوٹے ہوا کرتے تھے، اور اسکول کے بعد یہ ڈراما شوق سے دیکھا کرتے تھے۔
انہوں نے شکوہ کرتے ہوئے کہا کہ جب وہ بڑے ہوئے تو انہوں نے اور عمران خان نے ہمیں بھُلا دیا۔
’اسلام آباد کے شہنشاہ جنات میرا نام پرائڈ آف پرفارمنس کیلئے آگے نہیں جانے دیتے‘
حسیب پاشا نے مزید کہا کہ ایک زمانے میں پی ٹی وی کے چئیرمین عطااللہ قاسمی تھے، انہوں نے میرا نام پرائڈ آف پرفارمنس کے لیے نامزد کیا، مسلسل 4 سالوں تک میرا نام پرائڈ آف پرفارمنس کے لیے بھیجا جاتا رہا، لیکن آخری وقت پر میرا ایوارڈ کسی مرحوم فنکار کو دے دیا جاتا تھا۔
انہوں نے شکوہ کرتے ہوئے کہا کہ ایک وقت آیا کہ مجھے کسی نے بتایا کہ ٹی وی اور فلم کی اداکارہ مہوش حیات، جنہیں میں نہیں جانتا، میرا ایوارڈ انہیں دے دیا گیا ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ اسلام آباد میں پتا نہیں کونسے شہنشاہ جنات بیٹھے ہیں جو میرا نام آگے نہیں جانے دیتے، حسیب پاشا نے کہا کہ ہم 40 سالوں سے مقامی سطح کے علاوہ بین الاقوامی سطح پر کام کر رہے ہیں لیکن ہمیں کسی ایوارڈ سے نہیں نوازا گیا، کسی فنکار کے انتقال کے بعد ان کے کام کو تسلیم کرنے کا کیا فائدہ؟