18 ارب ڈالر جرمانے سے بچنے کیلئے امریکا سے پاک-ایران گیس پائپ لائن کی اجازت طلب
خیال کیا جاتا ہے کہ پاکستان نے امریکا سے کہا ہے کہ وہ اسے ایران سے گیس خریدنے کے لیے پائپ لائن بنانے کی اجازت دے یا مارچ 2024 تک اس منصوبے کو مکمل نہ کرنے کی صورت میں اسے 18 ارب ڈالر کا متوقع جرمانہ ادا کرنے میں مدد کرے۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق سفارتی ذرائع نے ڈان کو بتایا کہ وزیر مملکت برائے پیٹرولیم مصدق ملک نے رواں ماہ کے اوائل میں جب واشنگٹن کا دورہ کیا تو امریکی حکام کے سامنے یہ معاملہ اٹھایا اور انہیں سمجھایا کہ وہ قانونی طور پر یا تو اس منصوبے کو مارچ 2024 تک مکمل کرنے کے یا پھر اربوں ڈالر جرمانہ ادا کرنے کے پابند ہیں۔
ان ذرائع کے مطابق، ’واشنگٹن ابھی تک درخواست کا جائزہ لے رہا ہے۔‘
واشنگٹن کے ووڈرو ولسن سینٹر میں جنوبی ایشیائی امور کے اسکالر مائیکل کوگل مین نے ڈان کو بتایا کہ بائیڈن انتظامیہ ’پاکستان کے مسئلے کو سمجھتی ہے‘ لیکن جواب دینے کی کوئی جلدی نہیں ہے۔
انہوں نے کہا کہ ’ایران کے ساتھ امریکا کے تعلقات جو بائیڈن کے دور میں خراب ہونے کی وجہ سے، میں توقع نہیں کرتا کہ انتظامیہ تہران کے ساتھ تجارتی تعاون پر کسی بھی ملک کی مدد کرنے کے لیے اپنے راستے سے ہٹ جائے گی۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’لیکن واشنگٹن یہ بھی سمجھتا ہے کہ اسلام آباد کے معاشی مفادات ایسے پالیسی اقدامات اٹھانے کی ضرورت پیدا کرتے ہیں جو امریکی مفادات کے خلاف ہو‘۔
امریکی تجزیہ کار کا مزید کہنا تھا کہ اس سے پتا چلتا ہے کہ انتظامیہ کو کوئی بھی قدم اٹھانے میں کوئی جلدی نہیں ہوگی، چاہے اس میں چین کی جانب سے پاکستان کی مدد کے لیے قدم اٹھانے کا امکان ہی موجود ہو۔’
جب پاکستانی صحافیوں نے امریکی محکمہ خارجہ سے سرحدی تجارتی چوکی کے افتتاح کے دوران پاکستانی اور ایرانی رہنماؤں کے درمیان حالیہ ملاقات کے بارے میں پوچھا تو ان کے ایک ترجمان نے کہا کہ ’ہم اس ملاقات سے آگاہ ہیں‘ جہاں دونوں ممالک کے درمیان توانائی کے شعبے میں تعاون پر بھی بات کی گئی لیکن ہم اس رابطے پر کوئی تبصرہ نہیں کررہے۔
تاہم ترجمان نے اس مشکل صورتحال سے نمٹنے میں پاکستان کی مدد کے لیے حالیہ امریکی کوششوں کی تفصیلات شیئر کیں۔
امریکی عہدیدار نے کہا کہ پاکستان کی اقتصادی ترقی، توانائی کے تحفظ اور ماحولیاتی استحکام کو یقینی بنانا پاکستان کے ساتھ ہمارے دوطرفہ تعلقات کی ترجیح ہے اور ہمارے گرین الائنس کا سنگ بنیاد ہے۔
انہوں نے وضاحت کی کہ کس طرح امریکا گزشتہ 20 سال سے پاکستان میں براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری کے ساتھ سرکردہ سرمایہ کار رہا ہے جس کا حجم سال2022 میں 25 کروڑ ڈالر تھا۔
عہدیدار نے کہا کہ امریکی کمپنیاں پہلے ہی اہم سرمایہ کاری کر رہی ہیں تاکہ ’پاکستان کو صاف ستھری، زیادہ لچکدار توانائی کی فراہمی تک وسیع رسائی فراہم کرنے میں مدد کی جا سکے۔‘
گزشتہ ہفتے میڈیا رپورٹس میں بتایا گیا تھا کہ اگر اسلام آباد مارچ 2024 تک پائپ لائن کا اپنا حصہ مکمل کرنے میں ناکام رہتا ہے تو ایران پاکستان پر 18 ارب ڈالر کا جرمانہ کر سکتا ہے۔
رپورٹس میں کہا گیا تھا کہ رواں ماہ کے اوائل میں ایران نے دورے پر آئے ہوئے پاکستانی وفد کو آگاہ کیا تھا کہ پاکستان اپنے نظرثانی شدہ معاہدے کے مطابق گیس پائپ لائن کی تعمیر کرے یا جرمانہ ادا کرے۔
ایران پہلے ہی پائپ لائن کا اپنا حصہ مکمل کر چکا ہے جو گیس فیلڈ سے پاکستان کی سرحد تک ہے جہاں اسے پاکستان کے حصے سے جڑنا چاہیے۔
پائپ لائن کے مکمل ہونے اور شروع ہونے کے بعد پاکستان کو ایران سے روزانہ 750 ملین کیوبک فٹ گیس ملنا شروع ہو جائے گی۔
پاکستان نے 2014 میں پائپ لائن معاہدے پر دستخط کیے تھے، جس میں یہ شرط شامل تھی کہ اگر اسلام آباد اس منصوبے کو ترک کرتا ہے تو اسے اربوں ڈالر جرمانہ ادا کرنا پڑے گا۔