برطانیہ کا بین الاقوامی طلبہ پر نئی پابندی عائد کرنے کا منصوبہ
حکومت برطانیہ نے ویزا کی نئی پابندیوں کا اعلان کردیا جو بین الاقوامی طلبہ کو متاثر کریں گی۔
ڈان اخبار میں شائع ہونے والی رپورٹ کے مطابق نئے اقدامات کے تحت صرف 2 سال سے زائد عرصے تک چلنے والے ریسرچ پروگرام سے منسلک پوسٹ گریجویٹ کورسز کے طلبہ دورانِ تعلیم اپنے زیر کفالت افراد کو برطانیہ لانے کے اہل ہوں گے۔
بریگزٹ کے بعد سے برطانیہ نے یورپی یونین سے لوگوں کی آزادانہ نقل و حرکت ختم کر دی ہے، لیکن رواں سال ہجرت کی تعداد ریکارڈ بلندیوں کو پہنچنے والی ہے۔
اس میں سے زیادہ تر عنصر یوکرین، ہانگ کانگ اور افغانستان سے فرار ہونے والے لوگوں کے لیے مخصوص ویزا اسکیموں کا ہے لیکن خاص طور پر بھارت اور نائیجیریا سے طلبہ کی تعداد میں بھی اضافہ ہوا ہے۔
اس اقدام نے سیاسی تنازع کو جنم دیا اور گزشتہ ہفتے اس معاملے پر کابینہ کی لڑائی کھل کر سامنے آگئی جب دائیں بازو کی وزیر داخلہ سویلا بریورمین نے اپنی ہی حکومت پر زور دیا کہ وہ مزید سخت ہوجائے۔
تاہم مالیات اور تعلیم کے وزرا وزیر داخلہ کی مخالفت کرتے اور غیر ملکی کارکنوں کی جانب سے لائی جانے والی مہارتوں اور برطانیہ کی یونیورسٹیوں میں طلبہ کی جانب سے ادا کی جانے والی اعلی فیسوں کی قدر کرتے ہیں۔
سویلا بریورمین نے پارلیمنٹ میں دیے گئے ایک بیان میں بتایا کہ گزشتہ سال بین الاقوامی طلبہ کے زیر کفالت افراد کو تقریباً ایک لاکھ 36 ہزار ویزے جاری کیے گئے تھے جو کہ 2019 میں جاری کردہ 16 ہزار سے 8 گنا زیادہ ہیں۔
انہوں نے کہا کہ مستقبل میں غیر ملکی طلبہ کو اپنے کورسز مکمل کرنے سے پہلے ’طلبہ کے راستے کو کام کے راستے میں بدلنے‘ سے روکا جائے گا۔
تاہم حکومت نے کہا کہ وہ غیر ملکی طالب علموں کو اپنے کورس کے بعد اسی ویزا پر دو سال تک برطانیہ میں رہنے کا اہل ہونے میں کسی تبدیلی کا منصوبہ نہیں بنا رہی ہے، بشرطیکہ انہیں ملازمت مل گئی ہو۔
برطانوی وزیر داخلہ کے بیان کے مطابق اس سے ’بہتر اور زیادہ نفاذ کی سرگرمیاں‘ ہوں گی اور تعلیم کو امیگریشن کے لیے ایک کور کے طور پر استعمال کرنے والے ’بے ایمان ایجنٹوں‘ کے خلاف پابندی ہوگی۔
بریگزٹ کے حوالے سے سخت گیر وزیر، جن کی امیگریشن پر سخت بیان بازی تفرقہ انگیز ثابت ہوئی، نے کہا کہ بین الاقوامی نے برطانیہ کی معیشت کو سہارا دینے میں اہم کردار ادا کیا۔
تاہم انہوں نے کہا کہ یہ حکومت کے مجموعی امیگریشن کو کم کرنےاور برطانیہ میں انتہائی ہنر مند ہجرت کو یقینی بنانے کے ارادے کی قیمت پر نہیں ہونا چاہیے۔
یونیورسٹیز یو کے انٹرنیشنل کے ڈائریکٹر جیمی اروسمتھ، جو بیرون ملک برطانوی یونیورسٹیوں کی نمائندگی کرتے ہیں، نے اس بات پر شکوک کا اظہار کیا کہ نئے اقدامات سے ہجرت کی تعداد میں کمی آئے گی۔
انہوں نے کہا کہ زیادہ تر بین الاقوامی طلبہ زیر کفالت افراد کے ساتھ نہیں آتے، اس لیے طلبہ کی اکثریت اس تبدیلی سے متاثر نہیں ہوگی، ’یقیناً کچھ اثر پڑے گا، ورنہ حکومت تبدیلی متعارف نہیں کرائے گی‘۔
کووڈ وبائی مرض کے بدترین دور میں کمی کے بعد گزشتہ نومبر میں شائع ہونے والے سرکاری اعداد و شمار کے مطابق جون 2022 تک برطانیہ میں ہجرت کر کے آنے والوں کا تخمینہ صرف 5 لاکھ سے زیادہ تھا جبکہ رواں ہفتے متوقع نئے اعداد و شمار اس سے بھی زیادہ رہنے کا امکان ہیں۔