بھارت کی مقبوضہ کشمیر میں جی 20 اجلاس کامیاب بنانے کی کوششیں، پاکستان نے مذاکرات خارج از امکان قرار دے دیے
پاکستان نے مقبوضہ علاقے کی خصوصی حیثیت کو منسوخ کرنے کے بھارت کے 2019 کے اقدام کو واپس کرنے سے قبل کشمیر پر نئی دہلی کے ساتھ بات چیت کا امکان مسترد کر دیا جبکہ سری نگر میں دہلی کی میزبانی میں جی 20 اجلاس کے دوران مقبوضہ کشمیر کو سیاحتی مقام کے طور پر ظاہر کرنے کی کوشش جاری رہی۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق یہ اعلان سیکریٹری خارجہ ڈاکٹر اسد مجید کی جانب سے قومی اسمبلی کی کمیٹی برائے خارجہ امور کو دی گئی بریفنگ کے دوران سامنے آیا۔
قومی اسمبلی کی بریفنگ میں سیکریٹری خارجہ نے کہا کہ سعودی عرب، چین، ترکیہ اور انڈونیشیا جیسے اہم ممالک کی جانب سے سری نگر میں ہونے والے اجلاس سے دور رہنے کے فیصلے نے پاکستان کے مؤقف کی توثیق کی اور یہ ظاہر کیا کہ دنیا وادی کی متنازع حیثیت کو تسلیم کرتی ہے۔
انہوں نے واضح کیا کہ اس طرح کے سربراہی اجلاس کسی بھی طور پر مقبوضہ علاقوں کے غیر قانونی اور یکطرفہ الحاق کو جائز قرار نہیں دے سکتے۔
بلاول بھٹو زرداری کے حالیہ دورہ بھارت پر بات کرتے ہوئے، ڈاکٹر اسد مجید نے کہا کہ گووا میں شنگھائی تعاون تنظیم (ایس سی او) کی وزرائے خارجہ کونسل کے اجلاس میں وزیر خارجہ کی شرکت نے اس اہمیت کی توثیق کی ہے جو پاکستان علاقائی امن، سیکیورٹی، اقتصادی خوشحالی اور کنیکٹیوٹی کو دیتا ہے۔
ڈاکٹر اسد مجید نے کہا کہ اگرچہ رکن ممالک شنگھائی تعاون تنظیم کے پلیٹ فارم پر دو طرفہ تعلقات کو سامنے نہیں لاتے لیکن وزیر خارجہ نے جی 20 اجلاس میں نئی دہلی کے مندوبین کی جانب سے اسلام آباد کے خلاف کی جانے والی اشتعال انگیزیوں کا مقابلہ کرنے کی کوشش میں مقبوضہ کشمیر میں بھارت کے اقدامات کا پردہ پوشی سے حوالہ دیا۔
سیکریٹری خارجہ نے کہا کہ وزیر خارجہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ملک کی کامیابیوں اور قوم اور اس کی مسلح افواج کی قربانیوں کو اجاگر کر کے دہشت گردی کے خلاف پاکستان کے بیانیے کو گھر پہنچانے میں بھی کامیاب رہے۔
بھارت میں موجودہ سیاسی نظام کا حوالہ دیتے ہوئے، دفتر خارجہ کے عہدیدار نے ’فسطائیت اور تاریخ پر نظرثانی جو پرتشدد انتہائی قوم پرستی کا باعث بنتے ہیں، کے خلاف لڑنے کے لیے اجتماعی کارروائی پر زور دیا اور ساتھ ہی اس بات کو یقینی بنانے کے لیے کہ نسل پرستی اور زینوفوبک نظریات کی آج کی دنیا میں کوئی جگہ نہیں ہے‘۔
اس بات پر روشنی ڈالی گئی کہ 2012 کے بعد پاکستان کا مقدمہ بھارت سرزمین پر اتنی زبردست طریقے سے کبھی پیش نہیں کیا گیا۔
حکام نے کہا کہ تنازع کشمیر کی قانونی اور اخلاقی جہتیں ہیں اور پاکستان نے بین الاقوامی قانون کے اطلاق کے لحاظ سے کشمیر اور یوکرین کے درمیان مماثلتوں کی کامیابی سے وضاحت کی ہے۔
مقبوضہ وادی میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے حوالے سے اقوام متحدہ کے خصوصی نمائندے کے بیان کا حوالہ دیتے ہوئے حکام نے کہا کہ پاکستان مسئلہ کشمیر کے حوالے سے عالمی برادری کے تاثرات کو تبدیل کرنے میں کامیاب ہوا ہے۔
کمیٹی جس کا اجلاس محسن داوڑ کی صدارت میں ہوا، نے سفارش کی کہ پاکستان اور بھارت ایک دوسرے کے دارالحکومت میں ہائی کمشنرز کو بحال کریں۔
کمیٹی کے چیئرمین نے ریمارکس دیے کہ پارلیمنٹ نے بھارت اور افغانستان سے متعلق پالیسیوں پر غیر منتخب عہدیداروں کو جگہ دی ہے، خارجہ پالیسی میں نمائندہ اداروں کے زیادہ کردار پر زور دیا ہے۔
سافٹ پاور
دریں اثنا سیاحت کے عہدیداروں کے جی 20 اجلاس نے سری نگر میں ایک ہلکی پھلکی شروعات کی۔ بھارتی حکام کو امید ہے کہ جی 20 ایونٹ ثابت کرے گا کہ 2019 میں جموں و کشمیر کی حیثیت میں تبدیلی خطے میں ’امن اور خوشحالی‘ لے کر آئی ہے۔
مندوبین گرین ٹورازم اور ڈیسٹینیشن مینجمنٹ جیسے موضوعات پر تبادلہ خیال کریں گے جبکہ ایکو ٹورازم اور سیاحتی مقامات کو فروغ دینے میں فلموں کے کردار پر ضمنی تقریبات بھی طے کی گئی ہیں۔
کشمیریوں کا کہنا ہے کہ خطے کے لوگوں کے لیے جی 20 اجلاس کا مطلب اس وقت کچھ نہ کچھ ہوتا اگر یہاں معمول کی صورتحال ہوتی۔
الجزیرہ نے ایک کشمیری نمائندے کے حوالے سے بتایا کہ ’اب نارمل ہونے کا مطلب قبرستان کا معمول نہیں ہے جہاں آپ پر میڈیا، لوگوں اور جیلوں میں بند لوگوں پر پابندیاں ہوں اور ساتھ ہی آپ دنیا کو پیش کرنا چاہتے ہیں کہ سب کچھ نارمل ہے۔‘
ایونٹ میں چین، سعودی عرب اور ترکیہ نے شرکت نہیں کی اور بطور مہمان مدعو کیے گئے مصر بھی اس تقریب میں سے گریز کیا۔