احتجاج کرنے والی خواتین کے ساتھ ناروا سلوک آخر کب تک؟
کبھی کبھی دل چاہتا ہے کہ کیوں نہ ماضی کے گزرے ہوئے واقعات کے بارے میں لکھا جائے۔ اس کی وجہ شاید موجودہ حالات کی وجہ سے شدید ’بوریت‘ یا شاید یہ سمجھنے میں مشکل کہ اردگرد کیا ہورہا ہے، خیر وجوہات تو ایک سے زیادہ بھی ہوسکتی ہیں۔ میں آج کل بلیک فرائیڈے کے بارے میں پڑھ رہی ہوں۔ یہ وہ بلیک فرائیڈے نہیں ہے جسے مغربی دنیا نے سیلز سے منسوب کردیا ہے بلکہ وہ بلیک فرائیڈے کا واقعہ جو 1910ء میں رونما ہوا تھا۔ شاید اس وقت سیلز کوئی اہم چیز نہیں تھی۔
یہ وہ وقت تھا جب برطانیہ میں خواتین کو ووٹ ڈالنے کا حق حاصل نہیں تھا۔ اور بہت سی خواتین کو لگتا تھا کہ شاید یہی دنیا کا نظام ہے کہ ان کے شوہر اور بیٹے جو ووٹ ڈالیں گے، اس سے ان کے انتخاب کی بھی نمائندگی ہوگی۔
لیکن ان میں سے کچھ کو اس سے زیادہ کی توقع تھی۔ وہ ووٹ ڈالنے کے حق کا مطالبہ کرتی تھیں اور حکومت کی جانب سے انہیں محدود حق دینے کا وعدہ بھی کیا گیا لیکن پھر وہ اس وعدے سے مکر گئے۔ پھر ایک جمعے ان خواتین نے لندن میں پارلیمنٹ تک مارچ کیا اور زبردستی عمارت میں داخل ہونے کا فیصلہ کیا۔ کہا جاتا ہے کہ مظاہرین کی تعداد 300 تھی جبکہ ان کا مقابلہ پولیس کی بڑی تعداد نے کیا جن میں سے بہت سے پولیس اہلکاروں کے پاس خواتین مظاہرین سے نمٹنے کا کوئی تجربہ بھی نہیں تھا۔
بتایا جاتا ہے کہ یہ تصادم کئی گھنٹوں تک جاری رہا۔ پولیس اہلکاروں اور تماشائیوں نے یکساں بدسلوکی کا مظاہرہ کرتے ہوئے خواتین کو بےدردی سے مارا، ان پر حملہ کیا اور انہیں گھسیٹا۔
درحقیقت، مظاہرین نے الزام عائد کیا کہ سادہ لباس پہنے پولیس اہلکار بھی ہجوم کا حصہ تھے اور انہوں نے بھی ان کے ساتھ بدسلوکی کی۔ دن کے اختتام پر 100 خواتین اور 4 مردوں کو گرفتار کیا گیا جس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ مسئلہ کیا تھا یا پھر مسئلے کے طور پر کس کو دیکھا گیا۔
تاہم گرفتار ہونے والے تمام افراد کو کسی انکوائری یا کارروائی کے بغیر رہا کردیا گیا۔ تمام افراد کی رہائی کا فیصلہ اس وقت کے سیکریٹری داخلہ ونسٹن چرچل نے کیا تھا اور اس وقت یہ الزام عائد کیا گیا کہ یہ فیصلہ صرف اس لیے کیا گیا تھا کیونکہ اگر معاملہ آگے بڑھتا تو پولیس کے ظلم کا معاملہ زیادہ اجاگر ہوتا۔
اس بارے میں بھی ایک طویل بحث ہوتی رہی کہ آیا حکومت نے پولیس کو مظاہرین کے ساتھ گھناؤنا سلوک برتنے کا حکم دیا تھا یا نہیں۔ لیکن اس دن جو کچھ ہوا خواتین نے اس کی گواہی دی اور ان کے بیانات آج تک موجود ہیں۔
’ہجوم میں موجود کانسٹیبلز اور سادہ لباس افراد نے پیچھے سے میرے گرد بازو ڈالے اور لوگوں کے سامنے اپنے ہاتھ میری چھاتی پر رکھے جبکہ ہجوم میں موجود مردوں نے بھی ان کی دیکھا دیکھی میرا اسکرٹ اوپر کرنے کی کوشش کی اور کانسٹیبل نے اپنا گھٹنا اٹھا کر مجھے زمین سے اٹھانے کی کوشش کی۔ یہ وہ خود نہیں کرسکتا تھا تو اس نے مجھے ہجوم میں دھکیل دیا اور مردوں کو اُکسایا کہ وہ میرے ساتھ جیسا چاہیں ویسا سلوک کریں‘۔
ایک اور خاتون نے اپنے بیان میں کہا ’ایک پولیس اہلکار نے اپنے بازوؤں میں مجھے جکڑ لیا اور کہا کہ ’تم یہی چاہتی تھی، ہے ناں‘۔ ایک معذور خاتون کی وہیل چیئر کو نقصان پہنچا تو وہ اپنی جگہ سے ہل نہیں سکتی تھی، اس خاتون کو سڑک کنارے زبردستی لے جایا گیا اور اس پر حملہ کیا گیا‘۔
اخبار کے پہلے صفحے پر زمین پر لیٹی ہوئی خاتون اور ان کے اوپر کھڑے پولیس اہلکاروں کی تصویر شائع ہوئی، لیکن اس کے باوجود پریس خواتین سے ہمدردی کا اظہار نہیں کررہا تھا۔
پریس نے خواتین کو مشتعل ہونے پر تنقید کا نشانہ بنایا جبکہ پولیس فورس کے ساتھ ہمدردی کا مظاہرہ کیا گیا۔ بعدازاں دو خواتین جاں بحق بھی ہوئیں اور خدشہ یہی تھا کہ ان دونوں خواتین کی اموات اس دن آئے زخموں کی وجہ سے ہوئی۔
اس پرتشدد واقعے کا اثر ووٹ کا حق مانگنے والی خواتین کی تحریک پر پڑا۔ خواتین پیچھے ہٹ گئیں اور تحریک میں حصہ لینا چھوڑ دیا۔ جبکہ تحریک میں شامل دیگر خواتین مظاہرے کرنے سے گریز کرنے لگیں اور فوری ردِعمل دینے والی کارروائیوں کو ترجیح دینے لگیں جیسے کہ کھڑکیاں توڑنا تاکہ پولیس کے آنے سے قبل وہ بھاگ سکیں۔
لیکن لگتا یہ ہے کہ خواتین کو زندگی اور سیاست میں متحرک کردار ادا کرنے سے روکنے کے لیے ان کے خلاف تشدد اور جنسی ہراسانی کا حربہ آج بھی استعمال ہورہا ہے۔ چند ماہ پہلے سینیئر لکھاری زبیدہ مصطفیٰ نے ایک کالونی کے رہائشیوں کے ساتھ پولیس کی بدسلوکی کے حوالے سے لکھا جوکہ سڑک کو چوڑا کرنے کے لیے ہونے والی گھروں کی مسماری کے خلاف مزاحمت کررہے تھے۔
’اہم موڑ تب آیا جب انہوں نے مظاہرین کو حراست میں لینا شروع کیا اور معاملے کو نمٹانے کی جلدی میں انہوں نے 3 نابالغ لڑکیوں کو اٹھایا اور انہیں پولیس وین میں ڈالا جبکہ اسی مزاحمت کے دوران ایک بچی کا حجاب بھی پھاڑ دیا۔ انہیں مبینہ طور پر ناظم آباد تھانے لے جایا گیا۔ یہ بھی قوانین کی خلاف ورزی تھی کیونکہ ان لڑکیوں کو براہِ راست لیاقت آباد خواتین کے تھانے لے کر جانا چاہیے تھا لیکن انہیں ناظم آباد تھانے میں دن بھر تشدد کا نشانہ بنائے جانے کے بعد لیاقت آباد تھانے منتقل کیا گیا۔
’یہ سن کر دل دہل جاتا تھا کہ کس طرح ان [خواتین] کے ساتھ مار پیٹ کی گئی، ان کے چہروں پر نوچا اور کاٹا گیا جبکہ مبینہ طور پر قانون نافذ کرنے والے اہلکاروں کی طرف سے ان کے نازک اعضا پر حملہ کرنے کی کوششیں بھی کی گئیں۔
’انہیں بیت الخلا کی صفائی پر مجبور کیا گیا جبکہ انہیں پینے کے پانی کی جگہ پیشاب دیا جارہا تھا۔ ان کی برادری کے رہنما ان کو بچانے آئے اور آدھی رات سے کچھ وقت قبل انہیں رہائی ملی‘۔ یہ زبیدہ مصطفیٰ نے دسمبر میں شائع ہونے والے اپنے کالم میں لکھا تھا۔
لیکن میں نے اس پر لکھا نہیں۔ میں بہت پہلے رونما ہونے والے واقعے کے بارے میں لکھ رہی تھی۔ لیکن صحافیوں میں شاید فکری پختگی کی کمی ہوتی ہے۔ ہماری توجہ ایک واقعے سے دوسرے کی طرف چلی جاتی ہے۔ لیکن بلیک فرائیڈے کا موضوع طویل عرصے سے میرے ذہن میں تھا کیونکہ یہ ہمیں خواتین کی جدوجہد اور ان پر ہونے والے تشدد کی یاد دلاتا ہے جن سے وہ گزر رہی ہیں اور مساوی حقوق حاصل کرنے تک گزرتی رہیں گی۔ یہ مساوی حقوق ووٹ ڈالنے اور احتجاج کرنے کے بارے میں بھی ہیں۔
ان خواتین کے ساتھ مرد مظاہرین سے بھی زیادہ برا سلوک کیا جاتا ہے، کیونکہ احتجاج کے حق نے بھی اقتدار میں موجود مردوں کو بےچین کردیا ہے۔
یہ مضمون 23 مئی 2023ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔