’لیبر روم میں ایک کیوی ہے۔۔۔‘
ہاہ ہاہ ہاہ ! ہم بری طرح ہانپ رہے تھے اور بچہ تھا کہ نکلنے کا نام نہ لے۔ یا اللہ، کیوں یہ انوکھا لاڈلا ضد پکڑے بیٹھا ہے؟
ہماری اسسٹنٹ کبھی مریض کا لٹکتا ہوا پیٹ اوپر اٹھاتی، کبھی پیٹ کو اوپر سے دباتی۔
’سسٹر کیوی پلیز‘، ہم نے ہانپتے ہوئے کہا۔
سسٹر نے فوراً پلاسٹک کا بنا ہوا کیوی ہمارے ہاتھ میں پکڑا دیا۔ دائیں ہاتھ سے بچے کے سر کو قابو کرتے ہوئے بائیں ہاتھ سے کیوی کپ سر پر فکس کیا، پریشر بنایا اور پھر کھینچا۔
’آرہا ہے۔۔۔‘ اسسٹنٹ سکون کا سانس لیتے ہوئے بولی۔ بچہ نکالا اور نرس کے حوالے کیا جو اسے فوراً نرسری لے گئی۔
یہ مریضہ کا پانچواں سیزیرین تھا۔
ہماری ٹیم کسی اور جگہ مصروف تھی سو ہم نے سوچا کہ اپنی جونیئر ٹرینی کے ساتھ کرلیتے ہیں۔ اسے سمجھا اور دکھا کر چاقو کے کرتب دکھا رہے تھے کہ سنبھلنا پڑا۔ شائبہ ہوا کہ پیٹ کی دیوار سے شاید چھوٹی آنت کا کچھ حصہ چپکا ہوا ہے۔ اس حصے سے بچتے بچاتے پیٹ کے اندر پہنچے تو علم ہوا کہ شک تو درست تھا مگر مرے پہ سو درے کے مصداق مثانہ بھی اتنا اوپر تھا کہ سمجھیے نیچے مثانہ اوپر چھوٹی آنت۔
اب بچہ کیسے نکالیں، رحم کاٹنے کی جگہ ہی نہیں بن رہی تھی۔ چلیں ایک چھوٹی سی کھڑکی بنا کر کوشش کرتے ہیں اور یہ کوشش ناکام ثابت ہوئی۔ ہم چاہتے تھے کہ کھینچا تانی کے دوران مثانے اور چھوٹی آنت کو ضرب نہ پہنچے۔
خیر آخر میں کیوی کی مدد لینا پڑی۔ کیوی کی کہانی بھی زنبیل میں ہے لیکن ابھی نہیں۔ بس اتنا جان لیجیے کہ بچپن میں جو اشتہار دیکھتے تھے ناں، ’پیارے بچوں، کیوی کیا ہے؟ کیوی ایک پرندہ ہے‘۔ لیبر روم اور آپریشن تھیٹر میں ایک کیوی ہے تو سہی مگر لیکن وہ پرندہ نہیں۔
بچہ نکلا، کیوی اتارا اور بچے کے ایک لگائی، وہ بلبلا کر رویا، تب سب کی جان میں جان آئی۔
چلیے بچے کی طرف سے تو اطمینان ہوا اب سلائی کی باری آئی۔ اسسٹنٹ بالکل نئی تھی اور سلائی تکنیکی طور پر کچھ مختلف سو مشکل ہوئی۔ ٹیوبز بھی بند کرنی تھیں اور ان تک رسائی ناممکن تھی کیونکہ چھوٹی آنت راستہ گھیرے بیٹھی تھی۔ خیر کچھ نہ کچھ کر ہی لیا ہم نے ’پن گھڑ‘۔۔۔ پنڈی میں پیدا ہوں اور تھوڑی بہت پوٹھوہاری زبان نہ آئے یہ قابل معافی کیسے ہو؟ ٹرینی کو سکھاتے ہوئے رننگ کومینٹری کے ساتھ دو باتیں یاد آگئیں۔
ہم بھی کبھی ایسے ہی اناڑی کھلاڑی تھے۔ نشتر ہسپتال کا زمانہ، آپریشن تھیٹر اور ہم اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر اعجاز صاحب کے ساتھ ایک سیزیرین میں اسسٹنٹ تھے۔
ڈاکٹر اعجاز کافی شگفتہ طبعیت کے مالک تھے سو آپریشن کے دوران بھی قصہ کہانیاں چلتی رہتی تھیں۔ لیکن اس دن شاید کیس مشکل تھا یا شاید ہم بہت اناڑی تھے کہ ایک دم ہم سے پوچھنے لگے کہ کیا عمر ہے آپ کی؟ ہم حیران ہوئے کہ انہیں یک دم کیا ہوا؟ عمر بتادی بلا شرمائے کہ جوانی دیوانی کا زمانہ تھا۔ تھوڑی دیر کے بعد ہم نے ہمت کرکے پوچھ ہی لیا، کیوں سر؟ کہنے لگے ’جوانوں جیسا دم نہیں تمہارے ہاتھ میں، دھاگا اس قدر ڈھیلا پکڑا ہوا ہے کہ لگتا ہے بُڑھیا ہو‘۔
خیر جناب استاد تھے، بات سن لی لیکن ایسی دل کو لگی کہ اب آپریشن کے دوران جب ہم گرہ لگاتے ہیں تو ہمارے اسسٹنٹ کو اوزار کھول کر ڈھیلا کرنا مشکل ہوجاتا ہے۔ دل ہی دل میں مسکراتے ہوئے ہم اپنے آپ سے کہتے ہیں ،آئیے اور دیکھ لیجیے سر، سچ مچ کی بُڑھیا کی گرہ!
دوسری بات جو ہمیں اس کھینچا تانی سے یاد آئی وہ بھی اناڑی پن کے دنوں کی تھی۔ بڑے شہروں میں عام پریکٹس ہے کہ چھوٹے چھوٹے نرسنگ ہومز کو جب ایمرجنسی میں مریض کا سیزیرین کروانا ہو تو وہ کسی ٹرینی ڈاکٹر یا نئے نئے اسپیشلسٹ بنے ڈاکٹر کو بلا لیتے ہیں، کم خرچ بالا نشین۔
چلیے صاحب ہمیں بھی شوق ہوا اس زمانے میں کہ فالتو چار پیسے کمالیں، بچوں کی فیس ہی نکل آئے گی۔ ایک شام ایسے ہی نرسنگ ہوم سے بلاوا آیا چلے گئے فوراً۔ سیزیرین تھوڑا مشکل تھا، بچہ نکالیں تو نکلے نہیں۔ پھر اسٹیل کے بنے چمچوں سے بچے کا سر کھینچ کر نکالا جنہیں فورسیپس کہتے ہیں۔ کھینچا تانی میں ایک چمچ پھسل کر بچے کی ٹھوڑی پر چھوٹا سا زخم بنا گیا۔
آپریشن میں کوئی بھی گڑبڑ ہوسکتی ہے لیکن ظاہر ہے کہ زیادہ تجربہ کار ہاتھوں میں یہ احتمال کم سے کم ہوتا ہے۔ جیسے ڈیزائنر درزی سے غلطی ہونے کا چانس نہ ہونے کے برابر اور اگر ہو تو شرمندگی۔۔۔ ایسے ہی ہمیں بھی ہوئی گو کہ تب ہاتھ میں ایسی ہنر کاری نہیں اتری تھی جو برسہا برس کے تجربے نے عطا کی۔ لیکن اس چھوٹی سی پیچیدگی کے بعد بھی ہم اتنے افسردہ تھے کہ آپریشن فیس لینے سے ہی انکار کردیا اور ساتھ ہی توبہ کی کہ تب تک پرائیویٹ پریکٹس کا نام نہیں لیں گے جب تک۔۔۔ سمجھ جائیے نا اب اپنے منہ سے کیا کہیں!
آپ کا ذہن ضرور ابھی تک کیوی پر اٹکا ہوگا۔ ہم نے بتایا ناں کہ اس کی کہانی بھی زنبیل میں ہے، بس تھوڑا انتظار، پھر اسے بھی زنبیل سے نکالتے ہیں۔