جمہوری و انتخابی عمل کی ساکھ کیسے متاثر ہوتی ہے؟
ایک اعصاب شکن مقابلے کے بعد ترکیہ میں کوئی بھی صدارتی امیدوار 50 فیصد ووٹ حاصل میں کامیاب نہیں ہوسکا ہے جس کے بعد ملک اب رن آف انتخابات کی جانب جارہا ہے۔ صدارتی نظام کے انتخابی قوانین میں یہ تبدیلی اس وقت کے وزیرِاعظم رجب طیب اردوان (جو بعد میں صدر بنے) نے کی تھی جو اس عام انتخابات میں امیدوار بھی ہیں۔ رن آف انتخابات 28 مئی کو منعقد ہوں گے۔ اس وقت تک ترکیہ کی تقدیر کا فیصلہ نہیں ہوپائے گا۔
رواں سال زلزلے کی صورت میں بڑی تباہی کا سامنا کرنے والے اس ملک کو اپنے مستقبل کے حکمران کا فیصلہ کرنے کے لیے مزید 2 ہفتے انتظار کرنا ہوگا۔ حالیہ انتخابی مرحلے کے اختتام پر رجب طیب اردوان نے 49.5 فیصد ووٹ حاصل کیے جبکہ ان کی مخالف جماعتیں 44.89 فیصد ووٹ حاصل کرپائیں۔
دنیا بھر کے انتخابی اداروں کے لیے ترکیہ کے انتخابات بہت سی آزمائیشوں میں سے ایک ہے۔ عالمی معاشی عدم استحکام، روس اور یوکرین کے درمیان نہ ختم ہونے والا تنازع، ماحولیاتی آلودگی کے بڑھتے ہوئے خطرات اور کورونا کے بعد اقتصادی پریشانیوں کے باعث انتخابات کے وقت لوگ اس پریشانی میں مبتلا ہوتے ہیں کہ کس کو ووٹ ڈالا جائے۔ یہاں تک کہ جماعتوں اور امیدواروں کے درمیان حقیقی انتخاب سے ہٹ کر بھی جمہوری اداروں کی اہلیت پر بھی سوالیہ نشان اٹھتے ہیں۔
مثال کے طور پر امریکا جسے دنیا کی مضبوط ترین جمہوریت سمجھا جاتا ہے، وہاں بھی ووٹنگ مشینوں کے حوالے سے شکوک و شبہات، انتخابی عملے کی وفاداری اور سپریم کورٹ کے ججوں کی بدعنوانی کا انکشاف مستقبل میں کھڑے ہونے والے سنگین مسائل کی نشاندہی کررہا ہے۔
اس کی وجہ یہ ہے کہ انتخابات کی قانونی حیثیت، ووٹنگ کے ضوابط اور طریقہ کار پر منحصر ہے۔ جب ووٹرز کو یقین ہوتا ہے کہ انتخابات شفاف ہوئے ہیں تو منتخب ہونے والے نمائندوں کو ملک کے جائز حکمران اور قانون سازوں کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔
عوام کی بڑی تعداد کی نظروں میں انتخابات کس طرح اپنی قانونی حیثیت کھو دیتے ہیں اس کی ایک مثال ہم نے امریکی صدارتی انتخابات میں دیکھی تھی۔ سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے انتخابی نتائج کو قبول نہیں کیا۔ وہ اور ان کے حامیوں کا ماننا تھا کہ انتخابات کے نتائج ’چوری‘ ہوئے ہیں۔ یہ اس بات کا عندیہ دیتا ہے کہ اگلے انتخابات سے قبل ایک سنگین بحران امریکا کو اپنی لپیٹ میں لےسکتا ہے۔
امریکی انتخابات کی قانونی ساکھ پر سوالات اٹھانے والوں کے خلاف کامیابی کی تازہ مثال ہم نے تب دیکھی گئی جب ڈومینین جس نے انتخابات میں استعمال ہونے والی ووٹنگ مشین بنائی ہے، اس نے ٹرمپ کے حامی فوکس نیوز کی جانب سے 2020ء میں انتخابی مشینوں میں دھاندلی کے عائد کردہ الزامات پر انہیں ہتک عزت کا نوٹس بھیجا۔ فوکس نیوز نے تقریباً 80 لاکھ ڈالرز کی رقم ادا کرنے کی رضامندی ظاہر کی جوکہ امریکا میں کسی بھی ہتکِ عزت کے مقدمے میں دی جانے والی سب سے زیادہ رقم ہے۔ سول ٹرائل کے فیصلے میں ڈومینین کے ساتھ اتفاق کیا گیا اور میڈیا چینل کے دعووں کو غلط قرار دیا۔
اس کا مطلب یہ نہیں کہ دنیا کی سب سے زیادہ ترقی یافتہ جمہوریت میں انتخابات کی قانونی حیثیت پر سوالات اٹھانے کا معاملہ حل ہوچکا ہے۔ امریکا میں ٹرمپ کے لاکھوں سپورٹرز کا ماننا ہے کہ انتخابات کے اصل فاتح ٹرمپ ہیں۔ اگلے انتخابات شروع ہونے تک عوام کی بڑی تعداد کا یہ بیانیہ سیاسی منظرنامے میں ہلچل پیدا کرسکتا ہے۔ نہ صرف یہ خدشہ ہے کہ ٹرمپ کے حامیوں کا بیانیہ انتخابی عمل میں بگاڑ پیدا کرے گا بلکہ اگر ٹرمپ (جو ممکنہ طور پر اگلے انتخابات میں بھی صدارتی امیدوار ہوں گے) مسلسل دوسری بار انتخابات میں ناکام ہوتے ہیں تو جنوری 2021ء میں جیسے بغاوت کوشش ہوئی تھی، وہ دوبارہ بھی ہوسکتی ہے۔
مزید یہ کہ حال ہی میں یہ انکشاف ہوا کہ امریکی سپریم کورٹ کے جج نے مبینہ طور پر اپنے سیاسی روابط استعمال کیے ہیں، یہ انکشاف آنے والے وقتوں میں بحران کی صورت اختیار کرسکتا ہے۔
اگر ترقی یافتہ ممالک کی جمہوریتوں کا یہ حال ہے تو ہماری حالت ان کے مقابلے میں انتہائی خراب اور پیچیدہ ہے۔ جب بھی اقتدار کی منتقلی عمل میں آتی ہے تب نظام کی قانونی حیثیت پر سوالات کھڑے ہوجاتے ہیں پھر چاہے وہ پارلیمنٹ میں تحریک عدم اعتماد کامیاب ہونے کی صورت میں ہی کیوں نہ ہو۔ اس میں یکے بعد دیگرے کی جانے والی اپیلیں اور سپریم کورٹ کی جانب سے لیے گئے فیصلوں کی وجہ سے ایک غیریقینی کی صورتحال پیدا ہوجاتی ہے۔
حالیہ دنوں میں حکومت کی جانب سے سابق وزیراعظم عمران خان کی گرفتاری اور پھر سپریم کورٹ کے حکم پر ان کی رہائی نے بھی اسی غیر یقینی صورتحال کو ظاہر کیا۔ سپریم کورٹ کے باہر پی ڈی ایم کے دھرنے (جو ختم ہوچکا ہے) نے ملک میں جاری تناؤ کو واضح کیا اور اس حقیقت کی مزید عکاسی کی کہ مختلف اسٹیک ہولڈر کسی بھی ادارے کی جانب سے جاری کیے جانے والے ان فیصلوں پر تنقید کریں گے جو ان کے مفادات کے خلاف ہوں۔
یہ انتخابی عمل کے لیے اچھا نہیں ہے کیونکہ اس سے یہ لگتا ہے کہ اگر بیلیٹ باکس کے نتائج ان کے مطابق نہ ہوئے تو پھر کوئی بھی جماعت ایک یا زیادہ اداروں کے خلاف کھڑی ہوجائے گی۔
جمہوریت اور اس کے اہم عناصر یعنی انتخابات اور اختیارات کی تقسیم، ایک نازک عمل ہے جس میں انتہائی احتیاط سے کام لینا پڑتا ہے۔ اگر ایسا نہیں کیا جاتا تو وہ اپنی ساکھ کھونے لگتے ہیں۔ اگر ترکیہ کے انتخابات سے سبق سیکھا جائے تو پاکستان کو بھی اس پر غور کرنا چاہیے کہ مختلف حریف جماعتیں کیسے انتخابی عمل کو بدل سکتی ہیں۔
رجب طیب اردوان طویل عرصے تک برسرِ اقتدار رہے، انہوں نے اس دوران قواعد کی خلاف ورزی کی، ناقدین کو خاموش کروایا اور راستے سے ہٹایا، آزاد میڈیا کے خلاف کریک ڈاؤن کیا اور اختیارات کی تقسیم کو ختم کیا ہے۔ یہ سب دیکھتے ہوئے خیال آتا ہے کہ اگر رجب طیب اردوان ترکیہ کی جمہوریت میں بدلاؤ لےکر نہیں آتے تو کیا آج ان کی مخالف جماعتیں انتخابات میں کامیاب ہوچکی ہوتیں؟
پاکستان میں جیسے جیسے انتخابات نزدیک آتے جائیں گے، الزامات اور جوابی الزامات کا سلسلہ شدت اختیار کرتا جائے گا۔ اس ہنگامہ آرائی کے دوران پاکستان کے عوام کو اس بات کا اندازہ لگانا ہوگا کہ کون سی جماعت یا لیڈر قواعد کا احترام کرتا ہے تاکہ انتخابی عمل کی ساکھ کو نقصان نہ پہنچے۔ اسی طرح ایک لیڈر کو نہ صرف عوام کی فلاح و بہبود کی فکر کرنی چاہیے بلکہ اس نظام کے تقدس کا بھی احترام کرنا چاہیے جس کے ذریعے وہ منتخب ہوکر ایوانوں میں آتے ہیں۔
یہ مضمون 17 مئی 2023ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔